بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی تھری ایم پی او کے تحت مسلسل حراست کو بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔
یہ آئینی پٹیشن ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ نے ممتاز انسانی حقوق کے وکیل، ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کے توسط سے دائر کی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، جو کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف سرگرم آواز رہی ہیں، کو قریب تین ماہ قبل 3 ایم پی او کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، وکلاء اور شہری سوسائٹی کی جانب سے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی اور انتقامی عمل قرار دیا گیا ہے۔
پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر ماہرنگ کی حراست آئین پاکستان کے بنیادی انسانی حقوق، خصوصاً آزادی اظہار، نقل و حرکت اور منصفانہ ٹرائل کے اصولوں کے منافی ہے۔ درخواست گزار نے عدالتِ عظمیٰ سے اپیل کی ہے کہ وہ نہ صرف ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کی فوری رہائی کا حکم جاری کرے بلکہ تھری ایم پی او کے تحت سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کے غیر آئینی استعمال پر بھی نوٹس لے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی اور انسانی حقوق کے کارکنان نے عدلیہ سے امید ظاہر کی ہے کہ وہ قانون اور انصاف کی بالادستی کو برقرار رکھتے ہوئے ایک فعال اور غیر جانبدارانہ فیصلہ صادر کرے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ مہینے بلوچستان ہائیکورٹ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گل زادی بلوچ، شاہ جی صبغت اللہ، بیبرگ بلوچ اور غفار بلوچ کی تھری ایم پی او کے تحت نظر بندی کے خلاف دائر آئینی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے تمام اپیلیں مسترد کردی تھی ، اور حکومت کی جانب سے ان رہنماؤں کو زیر حراست رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
وکلاء کے مطابق بلوچستان ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے بعد قیدیوں کے قانونی نمائندگان کے پاس اب سپریم کورٹ میں اپیل کا راستہ باقی ہے ۔واضح رہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو 3MPO کے تحت اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں اور ریاستی تشدد کے خلاف احتجاجی تحریک کی قیادت کررہے تھے۔