کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل بھوک ہڑتالی کیمپ جاری 

0

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کی قیادت میں بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ میں جاری طویل احتجاجی کیمپ کو آج 5864 دن مکمل ہو گئے، قلات سے خدابخش بلوچ، نور محمد بلوچ اور نذیر احمد بلوچ نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

کیمپ آئے وفد سے اظہار خیال کرتے ہوئے تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا بلوچستان میں جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل اور شہری آزادیوں پر قدغن جیسے سنگین مسائل بدستور جاری ہیں ان کے مطابق ان واقعات کے تسلسل نے متاثرہ خاندانوں کو طویل المیعاد صدمے اور قانونی بےیقینی کا شکار بنایا ہے۔

ماما قدیر بلوچ کے مطابق مختلف علاقوں میں ایسے غیرریاستی مسلح گروہوں کو منظم کرنے کے شواہد سامنے آئے ہیں جنھیں عوامی تحریکوں اور بنیادی حقوق کی آواز دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے خاص طور پر مکران، قلات، خضدار، آواران، مستونگ، بولان، مچ، ھرنائی اور دکی جیسے علاقوں میں پاکستان فورسز کی کارروائیوں میں غیرمعمولی تیزی دیکھی گئی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کریں۔ 

انھوں نے کہا کہ خاموشی اور غیرعملی ردعمل نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تسلسل کو تقویت دی ہے جس سے نہ صرف متاثرہ خطے بلکہ پورے جنوبی ایشیائی خطے کے امن انصاف اور قانون کی بالادستی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ بلوچ عوام کو اپنے آئینی اور انسانی حقوق سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے اور دن دیہاڑے نوجوانوں کا جبری لاپتہ ہونا، ماورائے عدالت قتل اور ان کے اہل خانہ کا انصاف کے لیے دہائی دینا ایک سنگین انسانی المیہ ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا ان واقعات پر اقوام متحدہ اور دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ماضی میں تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے لیکن مؤثر عملی اقدام کا فقدان اب بھی باقی ہے۔

آخر میں انھوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی اصولوں اور قوانین کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی ادارے غیرجانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنائیں اور متاثرہ خاندانوں کو سچ، انصاف اور بازیابی کا حق فراہم کیا جائے۔