وسیم آزادی کا نقاب پوش سپاہی
تحریر: سفر خان بلوچ ( آسگال )
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ لمحے ایسے آتے ہیں جب سب کچھ رک سا جاتا ہے۔ لفظ گم ہو جاتے ہیں، آوازیں معدوم ہو جاتی ہیں، اور صرف خاموشی باقی رہتی ہے۔ ایسی خاموشی جس کے پیچھے درد چھپا ہوتا ہے، خواب چھپے ہوتے ہیں، اور بغاوت کی پہلی آہٹ دھیرے دھیرے جنم لیتی ہے۔
یہ خاموشی، جو بظاہر بے آواز ہے، درحقیقت سب سے بلند چیخ ہوتی ہے۔ وہ چیخ جسے صرف وہی سن سکتے ہیں جنہوں نے اپنی زمین کو صرف زمین نہیں، اپنی ماں سمجھا ہو۔ جن کے خواب ذاتی کامیابیوں سے نہیں، اجتماعی نجات سے جڑے ہوں۔ ایسے وقت میں جنم لیتے ہیں وہ کردار جو تاریخ کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں، مگر وقت کی رگوں میں دھڑکتے رہتے ہیں۔
وہ لفظوں میں انقلاب نہیں لاتے، بلکہ اپنے قدموں سے زمین کی نبض کو بدلتے ہیں۔ وہ دن کو ایک عام فرد ہوتے ہیں، اور رات کو نظریہ ان کی پہچان ان کے چہروں میں نہیں، ان کے خوابوں میں ہوتی ہے۔
ایسے کردار ہر جگہ ہوتے ہیں، کبھی میکسیکو کے کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے، کبھی ویتنام کے دریا عبور کرتے ہوئے، کبھی الجزائر کی گلیوں میں برقع اوڑھے ہوئے۔ ان کی کوئی ایک شکل نہیں، مگر ایک ہی روح ہے، مزاحمت، وفاداری، اور آزادی کی خاموش تڑپ۔
انیسویں صدی کے اختتام پر میکسیکو کے کسی دور دراز گاؤں میں ایک کسان، زاپاتا دن کو وہ ہل چلاتا، اور رات کو اپنی زمین کے لیے لڑنے کا خواب دیکھتا تھا۔ اس کے پاس نہ لشکر تھا، نہ جنگی سازوسامان، صرف ایک یقین تھا کہ زمین جس پر وہ کھڑا ہے، اس پر پہلا حق اس کا ہے، اور کوئی بھی ظالم، کوئی بھی نظام، اس یقین کو چھین نہیں سکتا۔ زاپاتا نے بغاوت کی، مگر بغیر چیخے۔ وہ نقاب میں تھا، مگر اس کا نظریہ بےنقاب تھا۔
وہ ایک شخص تھا، مگر ایک پوری نسل کی خواہش بن گیا۔
اس کے بعد اس کے خواب کئی چہروں میں جلوہ گر ہوئے، ویتنام کی دلدلی زمین پر بھاگتے ہوئے ہانوی کے سپاہی، الجزائر میں برقع پوش خواتین، کیوبا کے گوریلا، سب اسی خاموش جنگ کے سپاہی تھے۔ ان کے ہاتھ میں بارود نہیں، خواب ہوتے تھے۔ ان کے قدموں میں گھن گرج نہیں، نظریہ بولتا تھا۔
ایک ویتنامی سپاہی نے اپنی ماں سے کہا تھا “ماں، اگر میں واپس نہ آ سکوں تو میرے جوتے رکھ لینا، وہ بتائیں گے کہ میں کہاں کہاں چلا تھا۔ یہ جوتے، یہ قدم، تاریخ بن گئے۔
اور انہی ان دیکھی راہوں پر، وقت کے ایک موڑ پر، بلوچ سرزمین پر وسیم بھی چل رہا تھا۔ وسیم جیسے کردار تاریخ کی وہ سطریں ہوتے ہیں جو کتب میں کم، مگر دلوں میں زیادہ پڑھی جاتی ہیں۔ وہ روشنی کی وہ کرن ہوتے ہیں جو پوری رات نہیں، مگر وقت کی ایک گھڑی کو سنہرا کر دیتی ہے، اتنا سنہرا کہ نسلیں اس ایک لمحے کو یاد رکھتی ہیں۔
وسیم کا نام شاید کسی قومی ترانے میں نہ آئے، نہ کسی یادگار پر اس کے نقش قدم تراشے جائیں گے، مگر وہ ان کرداروں میں سے ہے جن کی ایک سانس تاریخ کی کئی صدیاں بدل دیتی ہے۔
پنجگور کی گلیوں میں چلتا ہوا وہ ایک عام شخص دکھائی دیتا تھا۔ لیویز کی وردی پہنے، بازار میں پرسکون انداز میں لوگوں کی جانب دیکھتا، جیسے کسی اور ہی سوچ میں ہو۔ لوگ اسے پہچانتے تھے، مگر صرف اتنا جتنا ایک روزمرّہ کا چہرہ پہچانا جاتا ہے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس عام نظر آنے والے شخص کے اندر، وقت ایک انقلاب کی سانس لے رہا ہے۔
دن کا وسیم شاید ریاست کا ملازم تھا، مگر رات کا وسیم کسی خواب کا مجاہد تھا۔ اندھیری راتوں میں جب شہر سو جاتا، وسیم جاگتا۔ نقاب چہرے پر نہیں، نظریے پر ہوتا تھا۔
نقاب اس لیے نہیں کہ پہچانا نہ جائے، بلکہ اس لیے کہ مقصد، ذات سے بلند رہے۔
اس کے قدم جب پتھریلے راستوں پر پڑتے، تو وہ صرف سفر نہ کرتے، وہ ایک کہانی لکھتے، ایک نسل کا خواب اپنے ساتھ اٹھائے، خاموشی سے آگے بڑھتے۔ اس کے ہاتھ میں بندوق نہیں تھی، مگر اس کے دل میں ایک مکمل نقشہ تھا۔
ایک ایسا نقشہ جس پر کوئی سرحد نہیں تھی، صرف امید تھی۔ جس میں خون کے دھبے نہیں، صرف وفاداری کی روشنی تھی۔
وسیم اپنی شناخت مٹا کر، ایک ایسی شناخت کا وارث بن گیا جو ہر مظلوم کے دل میں سانس لیتی ہے۔ وہ زاپاتا کی طرح کسان نہ تھا، مگر اس کی زمین سے وہی رشتہ تھا۔ وہ الجزائر کی ان عورتوں کی طرح بےآواز تھا، مگر اتنا ہی بااثر۔
وہ اس نسل کا سپاہی تھا جو ہار کو تسلیم نہیں کرتی، جو اپنی کہانی کتابوں سے نہیں، زمین پر قدم رکھ کر لکھتی ہے۔ وہ روشنی جو لفظوں میں بند نہیں ہو سکتی۔
شاید تاریخ اسے کسی عنوان میں جگہ نہ دے لیکن، کسی پہاڑی درے میں، کسی بوڑھی ماں کی خاموش دعا میں، کسی بچے کی بند آنکھوں میں جو خواب جاگتا ہے، وہ وسیم ہوتا ہے۔
وہ زندہ کردار جو مر کر بھی ختم نہیں ہوتا، وہ زندہ نظریہ جو گولی سے نہیں مرتا، وہ روشنی جو نہ بینر پر ہے، نہ خبر میں، بلکہ دل کے اندر، روح کے آس پاس، کسی خاموش گوشے میں دھڑکتی ہے۔
وسیم کو نہ دیکھنا ممکن ہے، نہ بھلانا۔ کیونکہ وہ شخص نہیں، ایک مسلسل جذبہ ہے، ایک کبھی نہ بجھنے والی چنگاری، جو صدیوں بعد بھی کسی اور وسیم کے دل میں دوبارہ بھڑک اٹھے گی۔
انقلابی کردار جسم سے زیادہ روح ہوتے ہیں۔
زاپاتا، الجزائر کی بےنام خواتین، اور وسیم یہ سب ایک ہی فکر کی مختلف شکلیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا تعارف تاریخ نہیں کرواتی، بلکہ جن کی خاموشی سے تاریخ خود اپنا تعارف کرواتی ہے۔
وہ کوئی نعرہ نہیں تھا، وہ وہ خاموشی تھی جس میں انقلاب سانس لیتا ہے۔ وہ وہ نظریہ تھا جو خود کو مٹا کر پوری قوم کے لیے جیتا ہے۔ نقاب چہروں پر نہیں، وقت کی آنکھوں پر ہوتا ہے۔ اور جب یہ نقاب اترتا ہے تو پتہ چلتا ہے، جس شخص کو ہم نے “عام” سمجھا، وہی دراصل قوم کی غیرت، قربانی، اور امید کا استعارہ تھا۔
ایسے کردار شاید مر جاتے ہیں، مگر ان کی سانسیں، زمین کی ہوا میں باقی رہتی ہیں۔ ان کے قدم، تاریخ کی گرد میں چھپ جاتے ہیں، مگر جب کبھی کوئی نوجوان پہاڑوں کی طرف نکلتا ہے، جب کوئی ماں چپکے سے آنکھوں سے آنسو پونچھتی ہے، جب کوئی بچہ خواب میں آزادی کا مطلب پوچھتا ہے تو وہاں کہیں… وسیم پھر سے زندہ ہو جاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔