مجھے اور میرے خاندان کو مسلسل ہراسمنٹ اور دھمکیوں کا سامنا ہے – سمی دین بلوچ

113

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء سمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ پانچ دن پہلے جب میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اپنے آبائی علاقے مشکے گئی، تو میرے پہنچتے ہی پاکستانی فوج نے ہمارے گاؤں کا محاصرہ کر لیا۔ گزشتہ پانچ دنوں سے پورا گاؤں فوجی گھیرے میں ہے۔ چوبیس گھنٹے دور بینوں، ڈرون کیمروں اور دیگر نگرانی کے آلات کے ذریعے میری نگرانی کی گئی۔ رات بھر ہمارے کمروں کے باہر سوتے ہوئے بستر پر ٹارچوں کی روشنی ڈالی گئی۔ میری نقل و حرکت کو محدود کیا گیا اور میرا نام لے کر میرے تمام رشتہ داروں کو مختلف طریقوں سے ڈرایا، دھمکایا اور ہراساں کیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ میرے گاؤں کے تمام گھروں کی تلاشی لی گئی۔ مردوں کی تصاویر لی گئیں اور خواتین کے شناختی کارڈ ضبط کیے گئے۔ راہ چلتے لوگوں کو شدید گرمی میں گھنٹوں کھڑا رکھا گیا۔ میرے دو کزن طالب علم ہیں انہیں جبراً حراست میں لے کر آرمی کیمپ منتقل کیا گیا۔ ان میں سے ایک کو 24 گھنٹے جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد رہا کر دیا گیا، جبکہ دوسرا تاحال لاپتہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میرے رشتہ داروں کو زبردستی آرمی کیمپ لے جا کر ویڈیوز ریکارڈ کروائی گئیں، جن میں ان سے مجھے، یعنی ‘سمی دین’ کو ایک دہشت گرد قرار دینے کا جھوٹا اور جبری اعترافی بیان دلوایا گیا۔ جس انداز سے مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنایا گیا پروفائلنگ، ہراسانی، دھمکیاں اور جھوٹی ویڈیوز کے ذریعے کردار کشی،ان اداروں کی خوف اور کمزوری کو واضح کرتا ہے، جو اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے جھوٹے پروپیگنڈے کا سہارا لے رہے ہیں۔

بی وائی سی رہنماء کا کہنا ہے کہ ہم جس اجتماعی اذیت کا ذکر کرتے ہیں چاہے وہ جبری گمشدگی ہو، یا محض سیاسی و انسانی حقوق کے کارکن ہونے کے جرم میں رشتہ داروں کو اغوا، ہراساں یا دھمکایا جانا، یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ میرے قریبی رشتہ داروں کو صرف مجھ سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہو۔ ماضی میں بھی میرے خاندان کے افراد کو کئی مہینوں، بلکہ سالوں تک جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔ انہیں انسانیت سوز سلوک و تشدد کا سامنا کرنا پڑا، صرف اس لیے کہ وہ میرے قریبی عزیز تھے۔

انہوں نے کہ اکہ اس بار بھی میرے رشتہ داروں کی پروفائلنگ، زبردستی کی تفتیش، ہراسانی جبری گمشدگی کا مقصد صرف مجھے جسمانی طور پر نہیں بلکہ سماجی طور پر بھی Isolate کرنا ہے اور اور میرے خاندان کو میری جدوجہد کی اجتماعی سزا دے کر مجھے دباؤ کا شکار بنایا جائے تاکہ میں اپنے اصولی مؤقف، اپنی آواز اور اپنی جدوجہد سے دستبردار ہو جاؤں۔

سمی دین نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ پاکستانی ادارے اور فوج جس طرح مجھے اور میرے ساتھیوں کو خاموش کرانے کے لیے جھوٹے مقدمات، تشدد، قتل کی دھمکیاں، اجتماعی سزا اور ہراسانی جیسے ہتھکنڈوں کا سہارا لے رہی ہے، وہ دراصل ہماری پرامن جدوجہد کے سامنے ریاستی اداروں کی بوکھلاہٹ اور کمزوری کی واضح علامت ہے۔ یہ تمام حربے ناکام ہو چکے ہیں، اور ہم ان جابرانہ طریقوں سے کسی صورت خاموش نہیں ہوں گے، نہ ہی بلوچستان میں جاری ریاستی بربریت اور جبر کے خلاف آواز اٹھانا بند کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری جدوجہد جبر اور ناانصافی کے آخری نشان کے خاتمے تک  جاری رہے گی۔