لاس اینجلس میں پُرتشدد مظاہرے، صدر ٹرمپ نے نیشنل گارڈ تعینات کر دیے

132

امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں امیگریشن حکام کی کارروائیوں کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج نے پُرتشدد صورت اختیار کر لی ہے، مظاہروں کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچا مظاہرین نے گاڑیوں کو آگ لگائی گئی اور پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا گیا۔

حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل گارڈ کے دو ہزار اہلکاروں کو شہر میں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔

احتجاج کا آغاز 6 جون کو اس وقت ہوا جب امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) نے لاس اینجلس کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر کم از کم 44 غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کیا۔

مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ گرفتاریاں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا نتیجہ ہیں ایک ہفتے کے دوران گرفتار افراد کی تعداد 100 سے تجاوز کر چکی ہے۔

مظاہرین نے مرکزی سڑکوں بالخصوص 101 فری وے کو بند کردیا جس سے ٹریفک کا نظام مفلوج ہو گیا اور متعدد خودکار گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں اور فلیش گرینیڈز کا استعمال کررہی ہے۔

لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پرتشدد مظاہروں کے چلتے اب تک کم از کم 30 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں، مظاہرین نے پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر دفاتر اور دکانوں پر بھی حملے کیے۔

ریاست کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے صدر ٹرمپ کے اقدام کو ریاستی خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ نیشنل گارڈ کی تعیناتی کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔

ان کا کہنا تھا صدر نے بحران کو خود پیدا کیا اور اب طاقت کے ذریعے اسے دبانا چاہتے ہیں یہ غیر آئینی اور ناقابل قبول ہے۔

دوسری جانب صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں مظاہرین کو ملک دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ امن بحال کرنے کے لیے جو بھی اقدامات درکار ہوں گے وہ کیے جائیں گے۔

شہر کی میئر کارن باس نے شہریوں سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سب کو مل کر اس شہر کو محفوظ بنانا ہے تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ صورتحال نہ صرف ریاستی و وفاقی اداروں کے درمیان تصادم کو ظاہر کرتی ہے بلکہ یہ امریکہ میں امیگریشن پالیسیوں، نسلی امتیاز اور آئینی اختیارات کے حوالے سے بڑھتے ہوئے تنازعے کی عکاسی بھی کرتی ہے۔