قصہِ جنگ، کہانی ماسٹر سفر خان – ہارون بلوچ

230

قصہِ جنگ، کہانی ماسٹر سفر خان

تحریر: ہارون بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

لکھتے وقت سب سے مشکل ترین کام کسی بھی جہدکار کے کردار کے ساتھ انصاف کرنا ہوتا ہے، یہی خیال کبھی کبھار کسی دوست یا جہدکار کیلئے لکھتے وقت لکھنے سے ترک کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت کسی بھی ساتھی کیلئے لکھنے کا خیال چھوڑ دیتا ہوں کہ مجھ جیسا ایک ان پڑھ شخص، بے علم شخص، بے عمل شخص، ایک ایسے کردار کے ساتھ کیسے انصاف کر سکتا ہے جو اپنی زندگی کے تمام خواہشات کو چھوڑ کر اس تکلیف دہ اور مشکل جدوجہد کا حصہ بنتا ہے جس میں صرف تکلیف، مشکلات، سختی، خواری، بھوک و افلاس اور جس زندگی کا ہر لمحہ تکلیف اور مشکلات کے ساتھ گزرتا ہے لیکن پھر یہی خیال لکھنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ نا لکھنا، لکھنے سے بھی بدتر ہے کیونکہ ایسے میں کسی سرمچار یا عظیم عملی انسان کے کردار کو گمنامی میں دھکیل دینا بھی ظلم ہے۔

عام طور پر ہمیں کبھی بھی یہ اندازہ نہیں ہوتا، البتہ باتوں کی حد تک ہم ذہنی طور پر خود کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم ہی اس جدوجہد کے حقیقی وارث ہیں، ہماری وجہ سے ہی آج تحریک اس مقام پر کھڑا ہے، چار الفاظ ادا کرتے ہوئے تحریک کا سہرہ اپنے سر لیتے ہیں، کوئی سوشل میڈیا کے چار پوسٹ کے ساتھ خود کو تسلی دیتا ہے کہ یہ جدوجہد میری وجہ سے قائم ہے، چند مجھ جیسے نالائق لوگ کسی آرام دہ کمرے میں بیٹھ کر چار الفاظ لکھتے ہوئے خود کو ذہنی طور پر مطمئن کر لیتے ہیں کہ اس جدوجہد کا اصل کردار تو میں ہو، اور چند لوگ ایک سرکل، ایک گفتگو، اور کسی سسٹم کا حصہ بن کر خود کو مطمئن کر لیتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس حقیقی جدوجہد کے وارث لالی جیسے، ماسٹر سفر خان، شہیک، نوتک، محمد ملک، عطا، امجد جیسے لوگ ہیں جو بدترین تکالیف کا سامنا کرتے ہوئے، اپنی زندگی دینے کے ساتھ ساتھ عملی میدان اور عملی کردار کے ساتھ اس جدوجہد کو مضبوط بناتے ہیں اور ایک الفاظ تک ادا نہیں کرتے کہ ہم نے اس تحریک کیلئے کیا ہے۔

جیسے ہم ماسٹر سفر کا ذکر کر رہے تھے۔ قصہِ ماسٹر سفر خان بھی ان دیوانہ وار ساتھیوں میں سے ہے جنہوں نے اپنے عملی کردار، جستجوئے علم، جستجوئے عمل، اور اپنی بہادری، شخصی خصوصیات، فوجی عملیات، ڈسپلن، سخت ذمہ داری لینے اور ہمیشہ کسی نہ کسی سرگرمی کی تلاش میں سرگردانی کی وجہ سے ساتھیوں کے درمیان بطور ماسٹر متعارف ہوئے۔ بقول ایک دوست جب ماسٹر پہلی مرتبہ کیمپ آیا تھا تو جستجو سے سرشار تھا، وہ ہر سینئر ساتھی اور کیمپ کے دیگر ساتھیوں کے پاس جاکر پوچھنے لگتا تھا کہ اس جنگ میں سب سے مشکل ترین مقام کیا ہے، کون کون سی چیزیں جنگ کے دوران سیکھنے چاہیے جس سے ایک شخص تنظیم کے اندر بہتر کام کر سکتا ہے، مجھے کس چیز پر زیادہ توجہ دینا چاہیے، فکری و نظریاتی پہلو سے لیکر فوجی پہلو اور ذمہ داریوں تک، وہ ہر چیز کا باریک بینی سے سوال پوچھ لیتا تھا۔

بقول ایک دوست جب ماسٹر کو کسی نے کہا تھا کہ اگر تمہیں جنگ کے معرکے، طریقہ، تنظیم کے اندر ڈسپلن اور دیگر ذمہ داریوں کے حوالے جاننا ہے تو تم فلاں شخص کے پاس جاؤ، وہی ہم سب کا استاد ہے، بقول سنگت جب ساتھیوں نے انہیں میرا نام دیا تھا تو وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑ دیتا تھا، ہر وقت، ہر لمحہ، وہ میرے پاس آکر میرا انوسٹی گیشن کرتا تھا اور میں انہیں ڈانٹ کر واپس بھیج دیتا تھا کہ میں کوئی سینئر وینئر نہیں ہوں، نا ہی میں کوئی بڑا زانتکار یا سمجھ دار ہوں، انہوں نے میرا مذاق اڑانے کیلئے تمہیں میرا نام دیا ہے لیکن اس کا طلب ختم نہیں ہوتا تھا اور وہ ہر وقت اور ہر لمحہ مجھ سے کچھ نہ کچھ پوچھ رہا ہوتا تھا کہ فلاں چیز کس طرح ہوتا ہے۔

گویا وہ کسی علم یا عمل کی تلاش میں تھا، ہم عام طور پر جب کسی جنگی یا سیاسی ادارے کا حصہ بنتے ہیں تو ہمیں لگنے لگتا ہے کہ بس ہمارا آخری مقام یہی تک تھا، بس اب ہم مکمل ہو چکے ہیں لیکن ماسٹر کو اس بات کا اچھی طرح علم اور شعور تھا کہ جدوجہد حصہ بننا مکمل ہونے کا مقام نہیں بلکہ جدوجہد کے اندر داخل ہونے کی بنیاد ہے، یہیں سے تو جنگ شروع ہو جاتی ہے، علم، عمل، ثابت قدمی، کردار کی شروعات ہوتی ہے، جدوجہد و تحریک، شہدا کے خون اور اس مقصد کو حاصل کرنے کی پہلی سیڑھی ہے، ادھر سے تمہارا امتحان شروع ہو جاتا ہے کہ تم اس جدوجہد کے اندر کیا کردار ادا کر سکتے ہو۔

بقول دوست ماسٹر جیسا محنتی شخص میں نے تنظیمی ساتھیوں کے درمیان نہایت کم ہی دیکھا تھا، عام طور پر جب ہم کسی سفر پر نکلتے تھے، یا فوجی کارروائی یا سرگرمی کے سلسلے میں شہر یا دیگر علاقوں میں جاتے تھے اور یہ سفر کبھی کبھار مہینے تک جاری رہتے تھے، سفر کے دوران یا کیمپ آنے کے بعد ہم کوئی لیٹنے کا جگہ دیکھ لیتے تھے، کہیں پر کوئی جگہ مل جاتا تو ہم وہی پر لیٹ لیتے تھے لیکن ماسٹر ان ساتھیوں میں سے نہیں تھا بلکہ وہ کیمپ یا کسی مقام پر آرام کرنے پر بیٹھ جانے سے پہلے کیمپ کی تمام سرگرمیاں کر لیتا تھا، کھانا بنانا ہو، یا علاقے کا سروے کرنا، وہ پہلے پورے علاقے کا سروے کر لیتا تھا کہ ہم جس مقام پر ٹہیرے ہیں وہ محفوظ ہے کہ نہیں ہے یا پورے علاقے کا سروے کرنے، کیمپ کے دیگر سرگرمیوں کو سرانجام دینے کے بعد ہی وہ بیٹھ جاتا تھا اور پھر کسی نہ کسی سرگرمی میں مشغول ہو جاتا تھا، ایسے لگتا تھا جیسے گویا اسے کوئی چھین یا آرام نہیں ہے اور وہ مسلسل عمل میں رہتا تھا۔

ماسٹر ان ساتھیوں میں سے تھا جو مطمئن ہونا نہیں جانتا تھا، وہ ہر وقت کسی نہ کسی سرگرمی کے ساتھ لگا رہتا، کچھ پڑھ رہا ہوتا تھا، یا پھر ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر کچھ سن رہا اور سیکھ رہا ہوتا تھا۔ بقول دوست وہ کیمپ کے اندر بہت ہی کم بول لیتا تھا البتہ فوجی کارروائی کے سلسلے میں ہمیشہ بھاگتا رہتا تھا، کسی نہ کسی طرح وہ ہر فوجی کارروائی میں حصہ لینا چاہتا تھا اور جب کوئی کام نہیں ہوتا تھا وہ ہر وقت میرے پاس آکر کچھ نہ کچھ پلان لے آتا تھا، یا جب بھی کچھ ساتھی کسی کام کے سلسلے میں جا رہے ہوتے وہ درخواست کر لیتا تھا کہ میں جاؤں گا، کیونکہ اسے لگتا تھا کہ ساتھی کسی فوجی کارروائی کے سلسلے میں جا رہے ہیں۔ بقول دوست کچھ فوجی سرگرمیاں ہمیشہ بطور راز رکھ لیے جاتے ہیں اور خاص کر بڑے فوجی سرگرمیوں سے تنظیمی ساتھی بھی آشنا نہیں رہتے لیکن ماسٹر میں ایک خصوصیت تھی کہ وہ دوستوں کے اٹھنے اور بیٹھنے سے اندازہ لگا لیتا تھا تنظیم کی طرف سے کچھ بڑا آپریشن پلان کیا جا رہا ہے، یا کوئی بڑا فوجی کارروائی سر انجام دیا جا رہا ہے اور جیسے وہ ہر کام اور سرگرمی کو اسی طرح سمجھ کر اس پر اپنی دل و جان لگا لیتا تھا۔

بقول سنگت، جب ماسٹر کی لالی سے ملاقات ہوئی تھی تو وہ لالی سے بے حد متاثر ہو چکا تھا اور زیادہ وقت لالی کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ وہ لالی کے طریقہ عمل سے خاصا متاثر ہو چکا تھا۔ لالی کی محنت، سوچ، طریقہ عمل، فوجی کارروائی کے لیے سخت محنت، اور جان سے زیادہ سختی ماسٹر کو بھا گئی تھی اور وہ لالی کے قریب ہو چکا تھا۔ لالی سے قربت کی وجہ سے اس کے عمل، کردار اور کام کے سلسلے میں بھی کافی تبدیلیاں آئی تھیں۔ ایک دو کارروائی کے دوران لالی کے ساتھ رہ کر بعد ازاں وہ ہر وقت لالی کی باتیں اور قصے کرتا تھا۔ ادھر اس کی فدائی طالب سے کافی دوستی ہو گئی تھی۔ بقول دوستوں، وہ طالب کے ساتھ کافی قربت اختیار کر چکا تھا اور طالب اور ماسٹر کی دوستی انوکھی تھی۔ دونوں ہمیشہ ایک ساتھ رہتے اور دشمن پر بڑے سے بڑے حملے کرنے کے حامی تھے۔ بعدازاں شہید طالب نے آپریشن ہیروف میں حصہ لیتے ہوئے بیلہ کے مقام پر دشمن پر کاری ضرب لگائی اور دیگر فدائین ساتھیوں کے ہمراہ دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور تاریخ رقم کر دی۔ دوستوں کے مطابق، شہید طالب کے فدائی حملے نے ماسٹر کے اوپر گہرے اثرات چھوڑ دیے تھے اور اس کی مذاق اور عمل میں مزید شدت پیدا ہو گئی تھی۔ چونکہ جنگ کا تقاضا کبھی خواہشات پر نہیں رہتا اور ماسٹر اس بات سے اچھی طرح آگاہ تھا، اس لیے طالب کے فدائی حملے کے بعد وہ شدید شدت سے اپنی سرگرمیوں میں انتہا پر رہتا تھا۔

شہید ماسٹر بہادری کا ایک اعلیٰ مثال تھا۔ وہ دشمن کے انتہائی نزدیک جا کر اس پر حملہ کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا تھا۔ کسی بھی ایمبوش کے وقت وہ سخت ترین ہتھیار استعمال کرنے والے ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا۔ اکثر و بیشتر جنگوں میں وہ بطور فرنٹ لائن واریئر کے طور پر کام کرتا تھا۔ بقول ایک دوست، میں نے اپنی فوجی زندگی میں بہت زیادہ جنگجو دیکھے ہیں، بہادر سے بہادر ساتھی دیکھے ہیں، جو دشمن کے کیمپس کے اندر جا کر ان پر حملہ کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے، لیکن ہتھیار کا جس خوبصورتی سے ماسٹر استعمال کرتا تھا، اس جیسا ہتھیار کا بہترین استعمال میں نے اپنی فوجی زندگی میں نہیں دیکھا ہے۔ بقول سنگت، وہ بندوق کا اس بےدردی اور خوبصورتی سے استعمال کرتا تھا کہ دشمن انسان اس کی جنگی صلاحیتوں کا دلدادہ رہ جاتا تھا۔ ہمیں جب بھی کسی بڑے معرکے کی تیاری کرنی ہوتی تھی تو ماسٹر ہماری پلاننگ کا ہمیشہ ایک اہم ترین کردار ہوتا تھا۔بقول دوست، تنظیم کے اندر تجربے کی کمی کی وجہ سے اسے باقاعدہ بڑی ذمہ داری مرکز کی طرف سے نہیں دی گئی تھی، لیکن اس کے قابل، باصلاحیت اور رہنماء کردار کی وجہ سے، ہم جب بھی کسی آپریشن کی پلاننگ، تنظیمی ذمہ داری، یا کسی بھی اہم مسئلے پر گفتگو یا چارہ جوئی کر رہے ہوتے، تو ہم ماسٹر کو اس گفتگو کا لازمی حصہ بنا لیتے تھے گوکہ اس کے پاس کوئی تنظیمی ذمہ داری نہیں تھی، لیکن وہ قابلیت اور صلاحیت کے معاملے میں اپنی عمر اور تجربے سے زیادہ ذمہ دار اور میچور تھا اور جب بطور ذمہ دار میں کیمپ میں موجود نہیں رہتا، تو میں زیادہ تر کیمپ اور ساتھیوں کی ذمہ داری ماسٹر کو دے دیتا تھا، کیونکہ مجھے اس کی صلاحیت اور قابلیت پر مکمل یقین اور اعتماد تھا۔

بقول دوست، میں جنگ کے میدان میں بہت ہی کم ساتھیوں سے متاثر رہا ہوں۔ اکثر و بیشتر جنگ کا حصہ بننے کے باوجود، کم شخصی کمزوریوں کی وجہ سے کسی نہ کسی جگہ پر تنظیم اور ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ لیکن ماسٹر میں یہ کمال تھا کہ وہ شخصی خصوصیات سے بھرا ایک انسان تھا، اور جو علم و عمل کی جستجو اور تلاش میں تھا۔ ایک عرصہ سیاست میں رہنے، سیاسی سرکلز کا حصہ بننے، تعلیم حاصل کرنے، کتابوں سے دوستی کے باوجود بھی، وہ سرمچاروں کے درمیان ایسے سوال کرتا تھا جیسے وہ پہلے دن کیمپ آیا کوئی جنگجو ہو۔ ہم عام طور پر چار کتابیں پڑھ کر خود کو ہر معاملے پر افلاطون سمجھنے لگتے ہیں، ہمیں لگنے لگتا ہے کہ ہم علمی حوالے سے ایک عام جہدکار سے آگے ہیں، لیکن حقیقی معنوں میں ماسٹر جیسے ساتھی اس جدوجہد کے دوران ثابت قدم رہتے ہیں، کیونکہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی طرح علم کی تلاش میں رہتے ہیں، وہ خود کو مکمل نہیں سمجھتے۔ جس طرح ہم خود کو عام طور پر چار الفاظ سیکھنے یا کوئی چھوٹی ذمہ داری ملنے کی صورت میں سمجھنے لگ جاتے ہیں، لیکن ماسٹر ہمیشہ کسی نہ کسی طرح سیکھنے کے عمل سے جڑا رہتا تھا، سوال کرتا تھا، پوچھتا تھا، ہر مسئلے اور معاملے پر اس کے باریک سے باریک معاملات تک پوچھ لیتا تھا۔ انتہائی محنت کرتا تھا، جب بھی انہیں کوئی ذمہ داری یا کام کے سلسلے میں بھیج دیتے تھے تو ساتھی مطمئن ہو جاتے تھے کہ اگر ماسٹر موجود ہے تو معاملہ حل ہے۔ فارمل ذمہ دار نہ ہونے کے باوجود بھی، تنظیمی ساتھی اسے ذمہ دار کے طور پر ڈیل کرتے تھے، کیونکہ وہ اپنے عمل، کردار اور صلاحیتوں کی وجہ سے اس قابل تھا کہ ہر معاملے میں، ہر مسئلے پر اور ہر کام کے سلسلے میں اسے شاملِ گفتگو کیا جائے کیونکہ ماسٹر کے یہاں عمل، کردار، اور اپنی ذمہ داریاں پورا کرنا ہی سب سے اہم تھا۔ وہ باقی ہر چیز سے بےغرض تھا اور اپنی تمام طاقتیں اپنی ذمہ داریوں کو سرانجام دینے میں لگا رہتا تھا۔

بقول ایک ساتھی جب میں نے ماسٹر کو دیکھا تھا تو اس کی صلاحیت، قابلیت، میچورٹی نے مجھے بے انتہا متاثر کیا تھا، اس کو دیکھ کر مجھے لگ گیا تھا کہ اب بلوچ جدوجہد و تحریک انتہائی آگے جا چکا ہے اور اس مقام تک آ پہنچا ہے جہاں ہمیں تنظیمی رینکس میں ماسٹر جیسے باصلاحیت اور قابل دوست دیکھ رہے ہیں۔ اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ لگاؤ، اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف کرنا، عاجزی اختیار کرنا جو بلوچ جنگ کی بنیادی فلاسفی میں ایک ہے، تعلیم و کتابوں سے مسلسل جڑے رہنا، جو اس کی علمی صلاحیتوں کو نکھارتا تھا، اور فوجی سرگرمیوں کے دوران ایک بدترین جنگجو کا کردار ادا کرنا جو ایک فوجی سے ہمیشہ توقع کی جاتی ہے۔ انہوں نے ناگاہو، بولان اور شور تینوں محاذوں پر بہترین جنگ کا مظاہرہ کیا، بہترین عمل و کردار اپنایا اور ہر محاذ کے ساتھیوں کا دل کرتا تھا کہ ماسٹر ان کے ساتھ کام کرے۔ گوکہ ہر سرمچار اپنے عمل اور کردار کی وجہ سے اپنے اندر انتہائی منظم شخصی خصوصیات رکھتا ہے لیکن تحریک کے اندر کردار کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے، ہر ساتھی کے اندر اپنی خصوصیات اور قابلیت ہوتے ہیں اور وہ اسے کی سلسلے میں انہیں سرانجام دیتے ہیں۔ جہاں تک ماسٹر کی بات کی جائے تو وہ اپنے کردار کی وجہ سے ہر ذمہ داری اور کام کے سلسلے میں فٹ آتا تھا، بقول دوست میری سوچ تھی کہ ماسٹر آگے جاکر تنظیم کے ان ساتھیوں میں شمار ہوگا جو تنظیم کے جنگی صفوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور وہ ایک مکمل قائدانہ صلاحیتوں سے بھرپور شخصیت کے مالک جہدکار تھا۔ جیسے کہ میں نے کہا کہ ہر جہدکار اور ساتھی کے اندر اپنی خصوصیات ہوتی ہیں، ماسٹر انہی تمام خصوصیات کا ایک مجمع تھا جو ناقابل بیان حد تک قابل اور باصلاحیت تھا۔ انہی صلاحیتوں کی وجہ سے اس نے تنظیمی ساتھیوں اور زمہ داروں کے یہاں جلد ہی ایک بڑا مقام حاصل کر لیا تھا۔

بشام نامی ایک سنگت درہِ بولان کے دوران ماسٹر سفر خان کی بہادری کے مظاہرے کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ ماسٹر کی بہادری، جرات اور دلیری دیکھ کر میں نے اسے قربان کا نام دیا تھا۔ وہ بہادری سے لڑنے اور دشمن پر ضرب لگانے کا ماہر تھا۔ آپریشن درہِ بولان، آپریشنل اسکلکو، آپریشن ہیروف تمام اہم آپریشن میں سفر خان نے بطور جنگجو اہم کردار ادا کیا اور ان آپریشن میں بھرپور حصہ لیا جنہوں نے بلوچ جنگ کے طریقے عمل اور فکر کو ہی تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ تنظیم نے انہی صلاحیتوں کو دیکھ کر ماسٹر کو جسٹس کمیٹی اور گشتی کمانڈ کی ذمہ داری دی تھی کیونکہ جس انداز کا وہ ایک جنگجو اور ہتھیار کا بہترین استعمال کرنے والا ساتھی تھا اسی طرح کا وہ ایک تعلیم یافتہ اور باعلم شخص تھا جو سہی اور غلط کے درمیان فرق کو بہتر سمجھ سکتا تھا، اس کا بہتر اندازہ لگاتا تھا۔

جہاں تک میری ذاتی تجزبات کا تعلق ہے، میں نے ماسٹر کو یاسر اور سفر خان کے روپ میں دیکھا ہے اور اس کے ساتھ سیاسی تعلقات، معاملات، تجزبات اور زندگی کے چند لمحات گزارے ہیں۔ ان میں ایک ایسی کشش تھی کہ سیاسی معاملات سے خود کو دور کرنے کے باوجود بھی جب بھی کبھی میرا سر خضدار کی طرف پڑتا تھا تو میں ان سے ملاقات کیلئے ہمیشہ بے چین رہتا تھا اور ان کے دیوان و مجلس کے انتظار میں رہتا تھا۔ جب بھی وہ بات کرتا تھا یا سوال رکھ لیتا تھا اس کے سوال اور باتوں میں عمل کی جستجو پہناں ہوتی تھی۔ کم گفتگو مگر پر اثر اور پر عمل گفتگو کا شوقین تھا۔ وہ زیادہ تر ایسے لوگوں پر توجہ دیتا تھا، یا انہی ساتھیوں پر یقین رکھتا تھا جو عملی میدان میں کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے کام کرنے پر توجہ دینا، اپنی ذمہ داریوں کو وقت سے پورا کرنا، سیکورٹی کے معاملات کو بہتر اور منظم انداز میں دیکھنا اور ان کا خیال رکھنا ان کے اولین شرائط میں رہتے تھے۔ وہ کوانٹٹی سے زیادہ کوالٹی پر یقین رکھنے والے ساتھیوں میں سے تھے۔

شہید ماسٹر سفر خان نوشکی میں دشمن کے ساتھ دوبدو لڑائی میں زخمی ہو گئے تھے، جیسے کہ میں نے بیان کیا تھا کہ وہ دشمن پر نزدیک سے وار کرنے پر یقین رکھنے والے ساتھیوں میں سے تھے اور دشمن پر سخت ترین حملوں کے حامی تھے۔ ایسے ہی ایک معرکے میں نوشکی کے سرزمین پر انہوں نے دشمن پر کاری ضرب لگائی بعدازاں ساتھیوں کے درمیان شہید ہوئے۔ اگر حقیقت میں کہوں تو ماسٹر کے آنے والے معرکوں اور جدوجہد میں تحریک کو سخت ضرورت ہوگی، مگر جنگ کے اس حقیقت کا ادراک بھی رکھنا ضروری ہے کہ اس میں کئی اہم اور بڑے سروں کی قربانی دینی ہوتی ہے تب جاکر تنظیم اور تحریک کی جڑیں انتہائی مضبوط رہتی ہیں۔

ماسٹر کے اندر میں نے بذات خود کافی حساسیت محسوس کی تھی۔ وہ کافی حساس تھا۔ تنظیمی سرگرمی ہو یا سیاسی معاملات پر ڈسکشن یا ڈیبیٹ، ہم عام طور پر جو زبان میں آئے کہہ جاتے ہیں۔ سیاسی ڈائیلاگ بازی سے لے کر لمبی تقریر اور بڑی بڑی باتیں، سیاسی موضوعات پر نکتہ دینے سے باتیں بدلنے تک، ہم شاید انہیں اہمیت نہ دیں کہ ہم جو کہہ رہے ہیں یا جن باتوں کا ذکر کر رہے ہیں، ہم ان باتوں کے ساتھ کس حد تک انصاف کر سکتے ہیں، یا کسی بھی سیاسی معاملے پر اپنی علمی بصیرت دیکھنے کے بجائے جو جی میں آئے کہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن ماسٹر میں، میں نے کسی بھی معاملے پر بات کرنے سے عمل کرنے تک، ہر معاملے کو انتہائی سنجیدگی اور حساسیت کے ساتھ ڈیل کرتے دیکھا۔ تحریک سے جڑے کسی بھی جہدکار کو جس طرح کھلا دل اور کھلا ذہن ہونا چاہیے، اسی طرح اسے بطور ایک انقلابی ساتھی حساسیت کا بھی مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایک تنظیمی دورے کے دوران، جب ہم ماسٹر کے سفر کے یہاں گئے تھے، تو انہوں نے سیکیورٹی کے معاملے کو لے کر انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کیا۔ ہم عام طور پر جب تک مار نہ کھائیں ہمیں سیکیورٹی کا کوئی خیال نہیں رہتا، لیکن ماسٹر کافی حساس تھا۔ صرف سیکیورٹی ہی نہیں بلکہ کسی بھی موضوع پر بات کرنے کے معاملے پر وہ ہر وقت حساسیت کا مظاہرہ کرتا تھا۔ آج ہم جن حالات کا سامنا کر رہے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کئی دہائیوں پہلے ہی اسی سنجیدگی اور حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔

ماسٹر کے فلسفے اور جدوجہد سے ہمیں جو سبق ملتے ہیں، ان میں سب سے اہم جستجوئے عمل اور جستجوئے علم ہے، جس کی اسے ہمیشہ تلاش تھی۔ ماسٹر نے ہمیں سکھایا کہ علم ایک مقام سے نہیں ملتا، بلکہ اس کی تلاش کرنی ہوتی ہے۔ اپنے ساتھی سرمچار یا جہدکاروں سے سیکھنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ خود کو مکمل سمجھنے کے بجائے علم کی تلاش کرنا، اور پھر عملی طور پر خود کو عملی میدان میں ثابت کرنا ہوتا ہے، تب ہی ہم ماسٹر جیسے کردار کا روپ دھار سکتے ہیں۔کوئی بھی جہدکار یا انسان اپنے اندر مکمل نہیں ہوتا، البتہ ہر جہدکار، ہر سنگت، ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ ٹیلنٹ، صلاحیت، طاقت اور تجربہ ہوتا ہے، جن سے سیکھا جا سکتا ہے۔ ہمیں ماسٹر کے اسی فکر و فلسفے کو اپنا کر خود کو عملی میدان میں دھکیلنا چاہیے کہ ہم بذات خود اپنے کردار، عمل، اور ذمہ داریوں کے ساتھ کس حد تک انصاف کر سکتے ہیں۔ ماسٹر سے ہم یہی سبق سیکھ سکتے ہیں کہ کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے لیے ہمیں بڑے عہدے کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ کسی بھی جہدکار کا عمل، کردار، اور ثابت کرنے کی صلاحیت ہی اس کے مقام کا تعین اور اس کے کردار کے تحریک پر اثرات چھوڑنے کا سبب بنتی ہے۔آج ماسٹر بطور کردار ہمارے سامنے موجود ہے، اور ہم بطور کردار اس کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب کوئی جہدکار یا ساتھی اپنے کردار پر توجہ دے کر، اپنی ذات کے ساتھ کریٹیکل ہو کر، اور جستجوئے عمل کے ساتھ اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرے گا، تو وہ یقیناً اس تحریک اور جدوجہد کے ساتھ کچھ حد تک انصاف کرنے میں شاید کامیاب رہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔