غنی بلوچ کو ریاستی اہلکاروں نے خضدار کے قریب حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ۔سلمان بلوچ

160

منگل کے روز نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر سلمان بلوچ نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم ایک نہایت اہم ، تشویشناک، تکلیف دہ اور آئینی نوعیت کے مسئلے پر آپ سے بات کرنے آئے ہیں۔ جو نہ صرف ہمارے ایک عزیز ساتھی کی زندگی بلکہ ہماری اجتماعی آزادی اور انصاف کے بنیادی اصولوں کو بھی چیلنج کر رہی ہے۔ ہمارے ساتھی، اسکالر اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن، غنی بلوچ کی جبری گمشدگی محض ایک فرد کی گمشدگی نہیں، بلکہ ایک سیاسی آواز کو دبانے کی کوشش ہے، ایک ایسی کوشش جسے ہم کبھی قبول نہیں کریں گے۔ آج ہم آپ کے سامنے اس ناانصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے اور حقائق دنیا کے سامنے رکھنے آئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ غنی بلوچ کو 25 مئی کو ریاستی اہلکاروں نے خضدار کے قریب حراست میں لیا۔ وہ کوئٹہ سے کراچی جا رہے تھے۔ آج آٹھ دن گزر چکے ہیں، لیکن نہ ان کی گرفتاری کی کوئی سرکاری تصدیق ہوئی ہے، نہ ہی انہیں عدالت میں پیش کیا گیا ہے، اور نہ ہی ہمیں یا ان کے اہل خانہ کو کوئی اطلاع دی گئی ہے۔ یہ سب آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 10 اور اسکے ذیلی شق 10-A کی واضح خلاف ورزی ہے، جو ہر شہری کو منصفانہ ٹرائل اور قانونی تحفظ کا حق دیتے ہیں ۔ہمیں اس وقت غنی بلوچ کی گرفتاری کی اصل وجوہات کے بارے میں مکمل معلومات نہیں، مگر یہ صورتحال ایک سیاسی اور نظریاتی نوعیت کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے بلوچ نوجوانوں کی فکری آزادی کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ غنی بلوچ نہ صرف ایک سیاسی کارکن ہیں بلکہ ایک اسکالر، ایک علمی رہنما اور کتابوں کے عاشق ہیں جنہوں نے بلوچ نوجوانوں میں تعلیم، شعور اور آگاہی کی فضا قائم کرنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔ ان کی غیر قانونی گرفتاری ایک سیاسی آواز کو خاموش کرانا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے اس ظلم کے خلاف فوراً قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا ہے۔ان کے اہل خانہ کی جانب سے کوئٹہ ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی گئی ہے، جس کی پیروی ایڈووکیٹ عمران بلوچ کر رہے ہیں،جس کی سماعت آج 03 جون کے لئے مقرر تھا اور مخالف فریق کو نوٹس بھیج دی گئی ہے، اور اس آئینی درخواست میں عدالت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ غنی بلوچ کو فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے یا کم از کم ان کی گرفتاری کی قانونی حیثیت واضح کی جائے۔ علاوہ ازیں، خضدار سیشن کورٹ میں بھی ایک درخواست غنی بلوچ کے جبری گمشدگی اور ملزمان کے خلاف قانونی کاروائی کے لیے دائر کیا گیا ہے، جس کی پیروی خود پارٹی کے مرکزی آرگنائزر وکیل کے حیثیت سے کر رہے ہیں ۔ وہاں پر بھی فریقین کو نوٹس بھیج دی گئی ہے۔یہ ہمارا واضح پیغام ہے کہ ہم اس معاملے کو ہر فورم پر اور ہر سطح پر سنجیدگی سے اٹھائیں گے۔

انہوں نے کہاکہ ہم ریاستی اداروں بلخصوص عدلیہ سے مخاطب ہیں کہ وہ اس ناانصافی کو فوراً ختم کرائیں، غنی بلوچ پر کوئی الزام ھے تو اسے عدالت میں پیش کریں، اور شفاف اور قانونی طریقے سے حل کیا جائے۔ یہ گرفتاری اور جبری گمشدگی نہ صرف ایک فرد کی زندگی کو متاثر کرتی ہے بلکہ اجتماعی سزا کے مترادف ہے جسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیاہے ۔

مزید کہاکہ آپ کے توسط سے ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاسی جدوجہد جمہوری طرز پر گامزن ہے اور اظہار رائے کا مکمل احترام کرتے ھیں۔ ہم انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافی برادری، طلبہ اور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ناانصافی پر آواز اٹھائیں اور ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔ ہم آپ کے سامنے اس بات کا ایک بار پھر اعتراف کرتے ہیں کہ غنی بلوچ کی گرفتاری کی ابھی تک کوئی سرکاری تصدیق سامنے نہیں آئی، جو اس پورے عمل کو غیر قانونی اور غیر آئینی بناتی ہے۔ ایسے تمام عمل کی نا صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ آئندہ بھی ہم قانونی چارہ جوئی جاری رکھیں گے، انسانی حقوق کے اداروں سے رابطے میں رہیں گے، اور ہر ممکن طریقے سے عوام میں شعور پیدا کریں گے تاکہ اس ظلم کے خلاف مؤثر تحریک چلائی جا سکے۔ ہم اپنے ساتھی کی بازیابی تک رکے نہیں گے اور ہر فورم پر ان کی واپسی کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق صرف ایک شخص سے نہیں بلکہ بلوچ عوام، دانشوروں اور ہر اس فرد سے ہے جو اپنی شناخت، زبان اور ثقافت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور حقوق کی بات کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم غنی بلوچ کو صرف ایک عام سیاسی کارکن کے طور پر نہیں بلکہ ایک علمی رہنما، باشعور سیاسی شخصیت کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ان کی ، کتابوں سے لگن، علم سے محبت، تنقید اور تحقیقی فن ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کی غیر موجودگی نے نہ صرف ہماری پارٹی بلکہ پورے بلوچستان کے تعلیمی اور فکری ماحول میں ایک گہرا خلا پیدا کیا ہے۔ ہم ان کی جلد واپسی کے لیے باامید ہیں اور یہ عزم کرتے ہیں کہ ان کی جدوجہد کو زندہ رکھیں گے۔

انہوں نے کہاکہ ہم آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ اپنے مقدس پیشے کی قدر کریں گے اور اپنی قلم، زبان، اور کیمرے کی مدد سے وہ آواز اٹھائیں گے جو نہ صرف ہمارے عزیز ساتھی غنی بلوچ کے حق میں بلکہ ہر مظلوم اور بے آواز انسان کے لیے انصاف کی ضامن بنے گی۔ آپ کی رپورٹنگ اور صحافتی ہمت ظلم کے اندھیروں کو چیر کر سچائی کی روشنی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔ اسی روشنی میں ہم سب کی امنگیں زندہ رہتی ہیں اور حق کی فتح یقینی ہوتی ہے۔