عید کے پہلے روز دالبندین سمیت چاغی کے مختلف علاقوں میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی ریلیاں اور آگاہی مہم

55

بلوچ یکجہتی کمیٹی رخشان ریجن چاغی زون اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے عیدالاضحیٰ کے پہلے روز دالبندین، نوکنڈی، یک مچ، امین آباد اور چاغی کے دیگر علاقوں میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا۔

دالبندین میں جبری لاپتہ غلام حضرت بلوچ اور عبداللہ بلوچ کی بازیابی کے لیے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی، جو شام پانچ بجے عرب مسجد سے شروع ہو کر دالبندین پریس کلب پر اختتام پذیر ہوئی۔

یہ دونوں افراد 2018 میں ڈنو کے مقام سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا نشانہ بنے تھے، اہلخانہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے انصاف کے تمام دروازوں پر دستک دی لیکن کہیں سے شنوائی نہیں ہوئی۔

اس موقع پر اہلخانہ نے انسانی حقوق کے اداروں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ غلام حضرت بلوچ اور عبداللہ بلوچ کی بازیابی کے لیے فوری اقدامات کریں۔

دریں اثناء بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے چاغی کے مختلف علاقوں میں ایک منظم آگاہی مہم کے تحت پمفلٹ تقسیم کیے گئے، ان پمفلٹس میں بلوچ عوام کو جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، اور ریاستی مظالم کے بارے میں آگاہ کیا گیا اور عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور خاموشی کو موت قرار دیتے ہوئے مزاحمت کو زندگی کا راستہ سمجھیں۔

پمفلٹس میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ اگر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبرگ بلوچ یا دیگر سیاسی قیدیوں پر کوئی الزام ہے تو انہیں کھلی عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا جاتا؟ بلوچ ماؤں، بہنوں اور بچوں کی فریاد کو نظر انداز نہ کرنے کی تلقین کی گئی اور ریاستی اداروں سے کہا گیا کہ وہ ظالم اور مظلوم میں فرق کریں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی رخشان ریجن چاغی زون نے عوام سے اپیل کی کہ وہ متحد ہو کر جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل جیسے ناقابل برداشت مظالم کے خلاف میدان میں آئیں۔

بلوچستان میں عید کا پہلا احتجاجی ریلیوں اور مظاہرہ کے درمیان گزارا گیا جہاں مختلف علاقوں میں لاپتہ افراد کے لواحقین نے عید احتجاجی کرتے ہوئے گزاری۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے “عید کی خوشیاں اور غمِ بلوچ” کے عنوان نے جاری کردہ اپنے بیان میں بلوچ قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی زندگیوں کا جائزہ لیجئے اور اس میں جاری ریاستی جبر کو تلاش کیجیئے۔ خود سے سوال کیجیئے کہ آپ اس جبر کا شکار کیوں ہیں؟ آئے روز آپ کے اردگرد یا آپ کے گھروں سے آپ کے پیاروں کو پاکستانی فوج جبری طور پر لاپتہ کیوں کر رہی ہے؟ کیوں آپ کو سڑکوں پر، اپنے گھروں یا سفر کے دوران فوجی چوکیوں پر روکا جاتا ہے؟ کیوں آپ کی زندگی میں مسلسل غموں کا طوفان برپا کیا جا رہا ہے؟

“آپ خود سے سوال کریں کیا آپ واقعی محفوظ ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ آپ کسی بھی حال میں کسی بھی جگہ محفوظ نہیں ہیں کیونکہ آپ بلوچ ہیں ریاستِ پاکستان کی نظر میں بلوچ غلام ہیں اسی لیے آپ ہر وقت جبر کے سائے میں زندہ ہیں اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس خاندان سے ہیں مرد ہیں یا عورت، بوڑھے ہیں یا بچے، معذور ہیں یا صحت مند پاکستانی فوج کسی کو نہیں بخشتی کیونکہ نہ ان کے پاس اخلاق ہے نہ ایمان اور نہ قانون کا خوف۔”

“‏ان حالات میں ہمارے لیے کون ہے؟ ہمیں اس صورتحال سے کون نکال سکتا ہے؟ ان سوالات کے جواب کے لیے ان قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کریں جو ایسے ہی جبر کا شکار تھیں اور جنہوں نے غلامی سے نجات حاصل کی ہمیں ان سے سیکھنا ہوگا کہ انہوں نے خود جدوجہد کی، کسی امداد یا انتظار کے بغیر ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے اور کامیابی حاصل کی۔”

‏‏بیان میں مزید کہا گیا ہے آج عید کا دن ہے یہ دن خوشی کا دن ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے آج بھی ہماری بلوچ قوم کی اکثریت عید کا دن غم اور اذیت کے سائے میں گزار رہی ہے ان کے پیارے جبری طور پر لاپتہ ہیں شہید کیے جا چکے ہیں یا روزانہ کی بنیاد پر دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا کر رہے ہیں۔