سمیعہ مزاحمت کی وہ شعلہ جو ہمیشہ جلتی رہے گی – کمال جلالی

57

سمیعہ مزاحمت کی وہ شعلہ جو ہمیشہ جلتی رہے گی

تحریر: کمال جلالی

دی بلوچستان پوسٹ

اگر ہم بلوچ قوم کی تاریخ پر ایک سچی اور غیر جانبدار نظر ڈالیں، تو ہمیں ابتدا سے لے کر آج تک ایک ہی وصف نمایاں دکھائی دیتا ہے؛ ظلم کے خلاف مزاحمت۔ بلوچ قوم نے ہمیشہ اپنی مٹی، اپنی شناخت، اپنی زبان، اور اپنی غیرت کی حفاظت کے لیے ہر ظالم قوت کا سامنا کیا ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو قلعوں میں قید نہیں ہوئی، نہ وعدوں میں بکی، نہ ہی لالچوں میں جھکی۔ اس کی سرزمین جتنی سخت ہے، اس کے لوگ اس سے کہیں زیادہ سخت جان اور اصولوں پر ثابت قدم ہیں۔ لیکن بلوچ مزاحمت صرف بندوقوں، پہاڑوں یا گولیوں کی کہانی نہیں، بلکہ یہ ایک پوری تہذیب، ایک سوچ، اور ایک طرزِ حیات ہے اور اسی مزاحمتی روایت میں بلوچ عورت کا کردار ایک تابندہ ستارے کی طرح چمکتا دکھائی دیتا ہے۔

سمیعہ قلندرانی، ایک ایسی بیٹی جس نے بلوچ مزاحمت کی تاریخ کو ایک نئی جہت بخشی۔ وہ محض ایک طالبہ یا باشعور خاتون نہیں تھی، بلکہ وہ ایک مکمل نظریہ تھی۔ سمیعہ نے اپنی مختصر مگر پُراثر زندگی میں یہ ثابت کر دیا کہ بلوچ عورت محض پردے کے پیچھے دعاؤں میں نہیں، بلکہ میدانِ عمل میں فدائی بن کر دشمن کے دل دہلا سکتی ہے۔ وہ گلاب تھی، نازک مگر خوشبو دار، مگر جب وقت آیا تو بارود بنی، بکھر گئی، مگر اپنے پیچھے ایک لازوال خوشبو چھوڑ گئی جو آنے والی نسلوں کو بیدار کرتی رہے گی۔

سمیعہ نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر یہ ثابت کیا کہ یہ جنگ مرد و عورت کی نہیں، بلکہ جذبے اور غیرت کی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو اس وقت شروع ہوتی ہے جب انسان اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر قوم، زبان، اور سرزمین کو مقدم سمجھنے لگتا ہے۔ سمیعہ نے جب اپنے سفر کا فیصلہ کیا تو یہ ایک جذباتی یا عارضی لمحہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک طویل فکری تربیت، اندرونی کشمکش، اور شعوری بیداری کا نتیجہ تھا۔ اُس نے دشمن کی طاقت کے سامنے ایک کمزور لڑکی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک فکری سپاہی کی حیثیت سے مزاحمت کی، اور اپنی زندگی کا آخری لمحہ اپنی قوم کے لیے وقف کر دیا۔

سمیعہ کا آخری پیغام خود اس کی سوچ کی گہرائی اور اس کے مشن کی شفافیت کی گواہی ہے۔ اُس نے کہا: “جب بات وطن کی آتی ہے تو ہمیں اپنی ذاتی زندگی، عیش و آرام، سب کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔” یہ ایک ایسا جملہ ہے جو صرف شہیدوں کے نصیب میں ہوتا ہے، کیونکہ یہ جملہ قربانی کے بعد ہی مکمل ہوتا ہے۔ سمیعہ نے اپنی عیش و آرام، اپنی ذاتی زندگی، اپنے خواب، اور اپنی ہر خوشی کو اپنی قوم کی بقا پر قربان کر دیا، بغیر کسی دکھ، شکایت یا واپسی کی امید کے۔

آج سمیعہ قلندرانی محض ایک نام نہیں، وہ ایک تحریک ہے۔ وہ ہر اُس لڑکی کے دل میں ایک سوال ہے کہ کیا تم بھی سمیعہ بننے کا حوصلہ رکھتی ہو؟ وہ ہر نوجوان کے ضمیر پر ایک دستک ہے کہ کیا تم صرف سوشل میڈیا پر نعرے لگانے آئے ہو یا قربانی کی راہ پر بھی قدم رکھ سکتے ہو؟ سمیعہ اب ایک علامت ہے اس مزاحمتی روح کی جو بلوچ قوم کی رگوں میں دوڑ رہی ہے، اور جسے نہ گولی ختم کر سکتی ہے، نہ زنجیر روک سکتی ہے۔

بلوچ عورت کی عظمت شاری سے شروع ہو کر سمیعہ، ماھل اور مائکان تک پہنچی ہے، اور یہ سلسلہ رُکنے والا نہیں۔ ان خواتین نے یہ واضح کر دیا ہے کہ بلوچ عورت صرف مظلوم ہونے کی کہانی نہیں، وہ مزاحمت کی بھی تاریخ ہے۔ وہ اس زمین سے جڑی ہوئی ہے، اس کی مٹی سے بندھی ہوئی ہے، اور جب دشمن اس زمین کو میلی نگاہ سے دیکھتا ہے، تو یہ عورت گلاب بن کر خوشبو نہیں دیتی  بارود بن کر بکھر جاتی ہے۔

سمیعہ کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ظلم کے خلاف صرف ہتھیار نہیں، نظریہ بھی ہونا چاہیے۔ اور جب نظریہ پختہ ہو، تو دشمن کے پاس لاکھ وسائل ہوں، وہ تمہاری روح کو شکست نہیں دے سکتا۔ آج سمیعہ کے جسم کے ٹکڑے ہو چکے ہیں، مگر اُس کے الفاظ، اُس کا نظریہ، اور اُس کی قربانی کا پیغام نسلوں کو زندہ رکھے گا۔ وہ چلی گئی، مگر وہ ہمیں جھنجھوڑ کر یہ سوال دے گئی: اگر ایک لڑکی اپنی جان دے سکتی ہے تو ہم خاموش کیوں ہیں؟

یہ خاموشی اب ٹوٹنی چاہیے۔ سمیعہ نے اپنا کردار ادا کیا، اب باری ہماری ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ سمیعہ جیسی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں، تو ہمیں سوچنا ہوگا، بولنا ہوگا، اور وقت آنے پر کھڑا ہونا ہوگا۔ کیونکہ تاریخ صرف یاد رکھنے والوں کو نہیں، قربانی دینے والوں کو یاد رکھتی ہے اور سمیعہ ان میں سے ایک ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔