ریاستی سرپرستی میں منظم تشدد – ٹی بی پی اداریہ

21

ریاستی سرپرستی میں منظم تشدد

ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان میں سیاسی مزاحمت اور آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے ریاستی اداروں نے جبر اور تشدد کو مرکزی حکمت عملی بنایا ہوا ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں ریاست کے زیرِ سایہ ایسے مسلح گروہ وجود میں آئے، جنہوں نے بلوچ سماج میں خوف، تقسیم اور بے یقینی کو جنم دیا۔ انہی میں سے ایک معروف چہرہ شفیق مینگل اور ان کے بھائی عطاالرحمان کا ہے، جو مبینہ طور پر خضدار اور گرد و نواح میں قائم ڈیتھ اسکواڈ کے قیادت سے وابستہ رہے ہیں۔ حال ہی میں عطاالرحمان کی ہلاکت کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی، جس کے بعد یہ معاملہ دوبارہ عوامی توجہ کا مرکز بن گیا۔

2008 کے بعد جب بلوچ مزاحمتی تحریک میں شدت آئی، تو ریاستی اداروں نے اس کے توڑ کے لیے ڈیتھ اسکواڈ طرز کے گروہوں کو استعمال کیا۔ ان گروہوں پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں، جن میں جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اغوا برائے تاوان، مذہبی شدت پسندی کو فروغ دینا، بھتہ خوری، اور زمینوں پر قبضے جیسے جرائم شامل ہیں۔ خضدار میں قائم شفیق مینگل کے گروہ کو ان تمام سرگرمیوں سے جوڑا گیا ہے، جن میں ان کے بھائی عطاالرحمان کا کردار بھی متعدد رپورٹس میں نمایاں رہا ہے۔

ان ہی الزامات کے تناظر میں 2014 میں توتک کے مقام پر ایک اجتماعی قبر کی دریافت ہوئی، جس سے 140 سے زائد مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ اگرچہ ان لاشوں کی مکمل شناخت ممکن نہ ہوسکی، مگر متعدد مبصرین اور انسانی حقوق کے ادارے ان واقعات کو ریاستی سرپرستی میں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کا تسلسل قرار دیتے رہے ہیں۔ پارلیمان کے اندر بھی ان گروہوں پر سوالات اٹھتے رہے ہیں، مگر ان کے مبینہ طور پر ریاستی پالیسی کا حصہ ہونے کے سبب ان پر کوئی قانونی گرفت نہ ہو سکی۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ عطاالرحمان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سنگین مقدمات اور عدالتی احکامات کے باوجود ریاستی ادارے ان کی گرفتاری میں ناکام رہے۔ الٹا ملک کے نگران وزرائے اعظم اور وزرائے داخلہ کی جانب سے ان کے ساتھ ملاقاتوں اور ان کے دفاع میں دیے گئے بیانات نے ریاست کی ترجیحات پر سنجیدہ سوالات کھڑے کیے ہیں۔

بلوچستان میں ریاستی پشت پناہی سے بننے والے یہ گروہ نہ صرف مسلح مزاحمت کو کچلنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ انہوں نے سماجی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ قبائلی دشمنیوں میں اضافہ ہوا ہے، سیاسی قوتوں میں تقسیم گہری ہوئی ہے، اور عام شہری ایک مستقل عدم تحفظ کا شکار ہوئے ہیں۔ عطاالرحمان جیسے افراد کو بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں میں “قومی مجرم” تصور کیا جاتا ہے کیونکہ ان کی سرگرمیوں نے نہ صرف تحریکِ آزادی کو نقصان پہنچایا بلکہ بلوچ معاشرے کی ساخت کو بھی مجروح کیا ہے۔

ریاست کو اگر واقعی امن و استحکام مطلوب ہے تو اسے ایسے غیر ریاستی عناصر کی سرپرستی ترک کرنا ہوگی، اور انسانی حقوق کی بالادستی کو اپنی پالیسی کا مرکز بنانا ہوگا۔