دل جان، فیض بزدار
تحریر: سنگت بشام بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دل جان… ہاں دل جان، آج بھی میرے خوابوں میں آتے ہیں اور کہتے ہیں:
“سنگت، رخصت آف اوارون۔”
آج دل جان کو یاد کر کے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔
میرے ذہن میں صرف ان کی یادیں ہیں۔
میرے حافظے میں شہیدوں کی یادوں کے سوا اور کچھ نہیں بچا۔
شہید دل جان صرف میرے ساتھی (سنگت) نہیں تھے، وہ میری روح اور جان تھے۔
شہید ہمیشہ مجھ سے کہا کرتے تھے:
“اس جہد کے سفر میں اگر تمہیں آگے جانا ہے تو کسی کے زیادہ قریب مت ہونا۔
یہ نہیں کہ سنگتوں کا خیال نہ رکھو—بالکل رکھو—
لیکن فکری حوالے سے خود کو کسی سے اتنا نہ جوڑنا کہ تمہاری نظریاتی کمزوری بن جائے۔
کیونکہ ہمیں آزادی تک یہ سفر جاری رکھنا ہے۔
ایسا نہ ہو کہ کسی دوست کی قربت تمہیں فکری اور نظریاتی طور پر کمزور کر دے۔
اس سفر میں ہم ہر وقت ساتھ نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔”
میں نے شہید سے کہا،
“سنگت، اگر کوئی سنگت شہید ہو جائے تو وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔”
شہید نے کہا:
“شہید سنگت جسمانی طور پر ہم سے جدا ہو جاتا ہے،
لیکن اس کا فکر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔”
میں نے کہا:
“سنگت، تم میرے دل سے دوست ہو۔”
شہید نے کہا:
“جس دن تمہارا یہ دوست شہید ہو جائے، تب تمہیں پتا چلے گا کہ میں تم سے کیا کہہ رہا تھا،
کیا سمجھا رہا تھا۔”
کچھ دن بعد ہم سفر پر نکلے۔
میں نے ذمہ دار سے کہا:
“میں دل جان کے ساتھ جاؤں گا۔”
ذمہ دار نے کہا:
“جی سنگت، کوئی مسئلہ نہیں، تم دل جان کے ساتھ جا سکتے ہو۔”
پھر ہم ایک ساتھ سفر پر روانہ ہو گئے۔
ہم دن بھر چلتے رہے۔
ایک جگہ رکے تو شہید دل جان نے مجھ سے کہا:
“یار، اگر یہاں فوج آ جائے تو تم کیا کرو گے؟”
میں نے کہا:
“سنگت، اگر فوج آ جائے، میں لڑوں گا!”
کہا:
“جی نہیں، اس فوج میں اتنی طاقت نہیں کہ یہاں تک آ جائے۔”
دو دن بعد ہم ایک اور جگہ پہنچے۔
پورا دن وہیں انتظار کیا، پھر رات ہوئی۔
رات کو ایک اور سنگت نے واکی ٹاکی پر بات کرتے ہوئے کہا:
“تم لوگوں کو آگے جانا ہے۔”
ہم نے وہ رات وہیں گزاری اور صبح پھر سفر پر نکل گئے۔
شہید نے کہا:
“بشام جان، منی پل، تم ایسا کرو، مجھ سے بات مت کرو۔”
میں نے کہا:
“جی جوان سنگت۔”
کچھ گھنٹوں بعد پھر کہا:
“منی پل بشام جان، ایک جنگ پہ گیا۔”
میں نے پوچھا:
“پھر کیا ہوا؟”
کہا:
“دشمن کو بہت مارا، تنخواہ دار سپاہیوں کو ایک ایک کر کے مارا،
اور دشمن کی کئی گاڑیاں (مڈی) اپنے قبضے میں لے لیں۔”
میں نے کہا:
“یار، یہ جنگ کہاں ہوئی تھی؟”
کہا:
“ابھی… میرے خیالوں میں۔”
میں نے کہا:
“واقعی! واہ میرے شیر!
تم نے تو دشمن کو نیست و نابود کر دیا۔”
کہا:
“یار، بس مذاق کر رہا ہوں۔ دل کرتا ہے کہ واقعی ایسا کوئی دن آئے،
جہاں میں دشمن کو ایک ایک کر کے مٹا دوں۔
میرے پاس راکٹ لانچر ہو، بیس گولے، ایک ایم-16، پندرہ میگزین۔
میں لڑتا رہوں، لڑتے لڑتے میرے سب گولے اور گولیاں ختم ہو جائیں،
اور پھر میں ‘آخری گولی کا فلسفہ’ لے کر شہید ہو جاؤں۔”
میں نے کہا:
“تمہاری یہی خواہش ہے؟”
کہا:
“جی سنگت!”
کچھ دن ہم سفر میں لگے، پھر واپسی کی تیاری ہونے لگی۔
برف کا موسم تھا۔
برفباری شروع ہوئی تو شہید نے کہا:
“یار، برف میں ہمارا سرزمین کتنا خوبصورت لگتا ہے نا؟
اور اس برف کے نیچے کتنے راز چھپے ہوتے ہیں!”
جب ہم کیمپ پہنچے تو شہید نے کہا:
“سنگت، صبح ایک کام کے لیے جانا ہے۔”
میں نے کہا:
“اس برف میں؟”
کہا:
“خوابوں میں تو دشمن کو مارا، اب حقیقت میں بھی کچھ کرنا ہے۔
ہم صبح نکل گئے۔ پورا دن انتظار کیا، واپسی کا سفر سرد رات میں شروع کیا۔
میں نے پوچھا:
“دل جان، اگر فوج آ جائے اور راستہ بند کر دے؟”
کہا:
“یہ دشمن کی فوج ہے، بلوچ سرمچار نہیں، جو سردی میں نکلیں گے۔”
ہم صبح کیمپ پہنچ گئے۔
کچھ دن وہیں رکے، پھر میں نے کہا:
“میں میٹنگ کے لیے جاؤں گا۔”
شہید نے کہا:
“پھر میں بھی ساتھ آؤں گا۔”
مجھ سے کہا:
“یار، تم کیوں میرے دوست ہو؟”
میں نے کہا:
“دل جان، تم نے خود کہا تھا کسی سے قریب نہ ہونا،
اب تم کیوں ایسی باتیں کر رہے ہو؟”
کہا:
“بس یار، دعا کرو کہ میں تم سے پہلے شہید ہو جاؤں۔”
میں نے کہا:
“اتنا گہرا دوستی ہو گئی ہے؟”
کہا:
“ہاں یار۔”
ہم پھر صبح نکلے، پورا دن سفر کیا۔
رات ایک جگہ رکے۔ شہید نے کہا:
“تم کچھ مت کرنا، سارا کام میں خود کروں گا۔”
میں نے کہا:
“نہیں، ایک ساتھ کام کریں گے۔”
کہا:
“ٹھیک ہے، تم چائے بناو۔”
میں نے چائے بنا دی۔
شہید نے کھانا بنایا، اور ہم کھانا کھانے کے بعد سو گئے۔
سونے سے پہلے شہید نے کہا:
“یار بشام، یہاں کچھ ہے۔”
میں نے پوچھا:
“کیا ہے؟”
کہا:
“پکی ہے، اسے پکڑتے ہیں۔”
ہم نے دو “پکی” پکڑے۔
پھر سو گئے۔
صبح ہوئی۔ شہید نے کہا:
“اٹھ جاؤ!”
میں نے کہا:
“سردی ہے، چھوڑ دو۔”
کہا:
“نہیں، سفر دور ہے۔”
میں سو گیا۔
اٹھا تو شہید نے چائے دی۔
میں نے کہا:
“دو پکی تھے، ایک کہاں ہے؟”
کہا:
“ایک میں نے پکایا، یہ تمہارے لیے رکھا ہے۔”
میں ناراض ہوا۔ کہا:
“چائے نہیں پیوں گا، بس چلیں۔”
کہا:
“ٹھیک ہے، جوان ہے سنگت۔”
تین گھنٹے بعد میں نے کہا:
“دل جان، بھوک لگی ہے۔”
کہا:
“وہی پکی میرے پاس ہے۔”
میں نے کہا:
“تم نے کھایا کیوں نہیں؟”
کہا:
“تمہارے بغیر کیسے کھاتا؟”
ہم نے وہی کھایا، پھر سفر کیا۔
میٹنگ کی جگہ پہنچے۔
کچھ دن ساتھ رہے۔
شہید دل جان کو گشتی ٹیم کا کمانڈ ملا۔
وہ گشت پر نکلے۔
پھر میں نے انہیں نہیں دیکھا۔
بس جب نیٹ ورک پہ آتا تھا تو ھال اھوال رہتا تھا۔
ایک دن انہوں نے کہا:
“یار، میٹنگ میں پھر ملیں گے۔”
ایک دن ایک دوست کیمپ میں نیٹ ورک سے آیا۔
میں نے پوچھا:
“کیا حال احوال ہیں؟”
کہا:
“کوئٹہ کے قریب ولی تنگی پر سنگتوں نے دشمن پر بڑا حملہ کیا۔
دشمن کو بھاری نقصان ہوا۔
اور ہمارے تین سنگت شہید ہو گئے۔”
میں نے پوچھا:
“کون؟”
کہا:
“سنگت درا، سنگت گرو، اور سنگت دل جان۔”
یہ سن کر مجھے لگا جیسے آسمان گر پڑا ہو۔
میرے دل، میری روح اور میرے پورے وجود میں بس یہی صدا گونجی:
“رخصت آف اوارون، سنگت!”
دل جان، اپنے علاقے کا پہلا شہید ہے۔
ایک دل جان کے شہید ہونے سے ہزاروں دل جان پیدا ہوں گے۔
دل جان نے اپنے دل میں آزادی کی شمع روشن کی،
اب وہ شمع ہمارے حوالے ہے۔
ہمیں اس شمع کو آزادی تک روشن رکھنا ہے۔
دل جان، منی جان!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔