داعش کے نام پر بلوچوں پر ظلم کیا گیا – عوام ان سے محتاط رہیں – میر عبدالنبی بنگلزئی کا آڈیو پیغام

1

بلوچ قوم دوست رہنماء میر عبدالنبی بنگلزئی نے اپنے ایک آڈیو پیغام میں بلوچستان میں داعش کی موجودگی، پاکستان کے ساتھ گٹھ جوڑ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ پیغام میں انہوں نے تاریخی نقاط پر بات کی ہے۔

میر عبدالنبی بنگلزئی اپنے پیغام کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں کہ انگریز کی ہندوستان پر حکمرانی سے پہلے یہاں پاکستان نام کی کوئی ملک نہیں تھی۔ یہاں پر افغانستان، ہندوستان، ایران اور بلوچستان کا وجود تھا۔ انگریز نے یہاں اپنے مفادات کے لیے ہندوستان پر حکمرانی کی، ایک حد تک بلوچستان پر حکومت کی۔

“انگریز کو اپنے مفادات کے لیے یہاں مزید رہنے کی ضرورت تھی۔ انہوں نے مزید چالیس سال یہاں رہنے کے لیے بلوچستان کے خان سے اجازت مانگی لیکن لوگ باشعور تھے، انہوں نے اس کی اجازت نہیں دی تو انگریز نے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے پاکستان بنایا کیونکہ بلوچستان ایسی طاقت نہیں تھی کہ وہ انگریز کے مفادات کے تحت روس یا دیگر کو روک سکیں۔”

“پاکستان بننے سے پہلے پنجاب و دیگر علاقے ہندوستان کا حصہ تھے۔ پاکستان کا کوئی وجود و شناخت نہیں تھا۔ بلوچوں کی اپنی ثقافت، رسم و رواج، زبان اور سرزمین ہے۔”

“اسی طرح افغانوں کو بھی مذہب کے نام پر کہا گیا کہ “ہم سب مسلمان بھائی ہیں”، مذہب کے نام پر بلوچوں اور پشتونوں کو دھوکے میں رکھا گیا۔ خانِ قلات کو مسلمان کہہ کر دھوکہ دیا گیا، خان نے سونے اور چاندی میں انہیں تول دیا جبکہ آخر میں انہوں نے خان کو بھی قتل کیا۔

میر عبدالنبی بنگلزئی کہتے ہیں آج بھی مذہب کے نام پر تحریکیں شروع کی گئی ہیں لیکن ہم نہیں دیکھتے کہ کوئی ایک بھی بلوچستان کے حقائق پر بات نہیں کرتا کہ ہزاروں لوگ، خواتین، بچے، مرد جبری لاپتہ کر دیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ آج پاکستان کی مدد سے داعش کے نام پر بلوچستان کے پہاڑوں میں کیمپس بنائے گئے ہیں۔ داعش نے رحیم بخش کلوئی کو ایجنٹ قرار دے کر قتل کیا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ پاکستان کے خلاف بات کرتا تھا۔

“پاکستان آج داعش کے ساتھ ہاتھ ملا چکا ہے۔ امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد نے کہا کہ داعش اور پاکستان، بلوچ کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔ داعش نے اب بلوچوں کے خلاف کارروائی کا باقاعدہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ بلوچ آزادی پسندوں اور ان کے ہمدردوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس مثالیں ہیں کہ داعش نے کابل (افغانستان) میں کیا کیا۔ انہوں نے حمداللہ مخلص کو قتل کیا۔ بلوچستان میں رحیم بخش کلوئی کو پہاڑ سے پھینک کر قتل کیا۔ یہ سارا ظلم ہو رہا ہے۔ پاکستان کی بلوچستان کے بغیر کوئی وجود نہیں ہے۔ یہاں کے وسائل کی اسے ضرورت ہے۔

میر عبدالنبی کہتے ہیں کہ میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ سب “داعش” سے خود کو دور رکھیں، یہ گناہ گار ہیں، ان کی کوئی مدد نہ کریں۔ وہ مذہب کے نام پر ہمارے درمیان موجود ہونا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے ایک خیر خواہ اور نیک شخص باقر جان کو قتل کیا۔ انہوں نے مولوی عبدالقدیر کو قتل کیا جو خطبات میں بلوچ حقوق اور بلوچستان کے لیے بات کرنے والے ایک مذہبی شخص تھے۔ ان کی طرح دیگر مذہبی شخصیات کو قتل کیا گیا جو بلوچ و بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے تھے۔

ان کا مقصد بلوچ ثقافت، رسم و رواج اور شناخت کو ختم کرکے سب کچھ پاکستان کا لانا چاہتے ہیں جبکہ پاکستان ہمارا ملک بالکل نہیں رہا ہے۔ اس نے زبردستی ہم پر قبضہ کیا ہے۔ انگریز کی بلوچستان سے نکلنے کے بعد بلوچستان ایک آزاد ملک تھا، خان نے ایک پارلیمنٹ کی تشکیل کی جس کے ایوان بالا و ایوان زیریں تھے۔

“کسی نے پاکستان کو قبول نہیں کیا تو اس نے اپنی فوج بھیج کر خاران، لسبیلہ، مکران، بلوچستان کے تمام حصوں پر قبضہ کرکے خانِ قلات کو دستخط کرنے پر مجبور کیا۔ یہ ہماری خواہش نہیں تھی بلکہ ایک بے بسی تھی۔ اس میں ہماری کمزوری بھی شامل ہے۔”

“خان نوری نصیر خان و خان محراب خان کے بعد ہمیں ایسے رہنما نہیں ملے۔ خان محراب خان نے اپنی جان دی لیکن ہتھیار نہیں ڈالے۔”

میر عبدالنبی کہتے ہیں کہ گزارش یہی ہے کہ ان (داعش) سے خود کو محفوظ رکھیں، یہ سب پاکستان کے ہمکار ہیں۔ پاکستان برطانیہ کی ناجائز اولاد ہے جس نے اپنے مفادات کے لیے اسے بنایا تھا۔ لہٰذا ان (داعش) سے دوری اختیار کریں۔ کابو (مستونگ) میں انہوں نے لوگوں کو ایجنٹ قرار دے کر بم دھماکے کیے جبکہ وہ عام کسان تھے جو اپنے کھیتوں پر کام کر رہے تھے۔ خود ان سے محفوظ رکھیں۔