بلوچ قیادت میں اختلاف ہی طاقت – میر ساول بلوچ

73

بلوچ قیادت میں اختلاف ہی طاقت

تحریر: میر ساول بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسان جب ہوش سنبھالتا ہے تو اسے والدین، اساتذہ یا کسی بزرگ کی جانب سے “اتفاق” کی اہمیت پر نصیحت کی جاتی ہے، اور اس کی خوبیاں گنوائی جاتی ہیں۔ ہمیں بھی بلوچ قوم کے بارے میں اکثر یہ سننے کو ملا کہ ہماری قوم میں اتفاق نہیں، اس وجہ سے ہم آج تک اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے۔

کہا جاتا ہے کہ ہر کوئی اپنی الگ پارٹی یا تنظیم بنا کر قومی تحریک کو کمزور کر رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کیا دنیا میں کوئی ایسی تحریک یا قوم نہیں گزری جس میں سب ایک ہی لیڈر کو مانتے تھے، تو پھر بھی وہ کیوں ناکام ہوئیں؟ تحریکوں میں اختلافات کا ہونا فطری بات ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تحریک ناکام ہے۔ بلوچ تحریک کئی کمزوریوں کے باوجود آج بھی جاری ہے۔ اگر صرف ایک پارٹی بنا کر تحریک کو چلانا کافی ہوتا، تو کیا بلوچ رہنما نواب خیر بخش مری کبھی یہ کوشش نہ کرتے کہ تمام بلوچ ایک تنظیم کے تحت متحد ہوں؟ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

یہی حکمت عملی نواب خیر بخش مری جیسے بزرگ رہنما نے اختیار کی۔ اگر وہ چاہتے تو اپنی ایک ہی تنظیم بنا کر تمام بلوچوں کو اس میں جمع کر لیتے مگر انہوں نے مزاحمت کو مختلف خطوط پر چلنے دیا تاکہ کوئی ایک کمزوری پوری تحریک کو نہ ڈبو سکے

جیسے افریقی براعظم میں تقریباً ہر ملک نے نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی الجزائر، کینیا، موزمبیق، انگولا، زمبابوے۔ ان تحریکوں میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ایک سے زیادہ گروہ لڑ رہے ہوتے تھے کچھ مارکسسٹ ہوتے، کچھ قوم پرست، کچھ غیر ملکی حمایت حاصل کرتے، کچھ خود مختار ہوتے۔ ہر کسی نے اپنے طریقے سے مزاحمت کو جاری رکھا۔ یہ تصور کہ صرف اتفاق سے آزادی حاصل ہوتی ہے افریقی تحریکوں کی تاریخ سے غلط ثابت ہوتا ہے۔

کئی تحریکیں شدید باہمی اختلافات اور گروہی تقسیم کے باوجود کامیاب ہوئیں۔

دنیا کی مختلف تحریکیوں کے بارے میں پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نواب خیر بخش مری جانتے تھے کہ ایک ہی لیڈر یا ایک ہی پارٹی کے ذریعے تحریک کو چلانے سے خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر وہ لیڈر گرفتار ہو جائے شہید ہو جائے یا کوئی غلط فیصلہ کرے تو پوری تحریک متاثر ہو سکتی ہے۔

اس کی بہترین مثال تامل ٹائیگرز کی ہے۔ ان کے لیڈر پرابھاکرن کی شہادت کے بعد پوری تحریک ختم ہو گئی۔ سری لنکن ریاست نے اپنی پالیسی نہیں بدلی، وہاں تامل کے لیے آج بھی وہی حالت ہے۔ ان کی زمین پر سری لنکا کی فوج کا کنٹرول ہے، لیکن تحریک ختم ہو گئی کیونکہ صرف ایک ہی گروہ لڑ رہا تھا۔ اگر تامل ٹائیگرز کے علاوہ بھی کوئی اور مسلح تنظیم ہوتی، تو شاید وہ خلا مکمل طور پر نہ سہی، کچھ حد تک پُر کیا جا سکتا تھا۔

اسی طرح کرد تحریک کی مثال لیں۔ کئی سالوں تک ایک لیڈر کی قیادت میں مسلح مزاحمت جاری رہی۔ اس تنظیم کی بنیاد 1978 میں رکھی گئی، اور 1984 سے PKK نے ترکی کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کی۔ کردستان ورکرز پارٹی کا ابتدائی اور مرکزی مقصد یہ تھا کہ ترکی، عراق، ایران اور شام میں بکھرے ہوئے کرد علاقوں کو یکجا کر کے ایک خودمختار کرد ریاست قائم کی جائے جسے کردستان کہتے ہیں۔ لیکن کچھ ماہ پہلے جب اس کے بانی لیڈر عبداللہ اوجالان نے جیل سے پیغام دیا کہ ہتھیار ڈال دیے جائیں، تو چند ہی مہینوں میں نوجوان پہاڑوں سے اتر کر گھروں کو واپس آنے لگے۔ ایک کرد ماں نے کہا: میں نے اپنے بیٹے کو چھ سالوں سے نہیں دیکھا لیکن اب امید ہے کہ ترکی اسے معاف کر دے گا۔ اتنی بڑی تحریک کا اختتام ایک قابض ریاست کی معافی کی امید پر ہو گیا۔

شاید کرد لیڈر نے وقت اور حالات کو دیکھ کر جنگ بندی کا فیصلہ کیا ہو، مگر سوال یہ ہے: کیا یہ نوجوان دوبارہ تحریک میں شامل ہوں گے؟ اگر وہاں بھی ایک سے زیادہ تنظیمیں ہوتیں تو شاید تحریک مکمل طور پر ختم نہ ہوتی۔ کردوں کے لیے امید کی کرن یہ ہے کہ شام، عراق اور ایران میں کرد مسلح تنظیمیں موجود ہیں جو شاید کرد آزادی کی تحریک کو آگے چلا سکیں۔

اور یہی وہ نکتہ ہے جسے ہمیں خاص طور پر سمجھنا ہوگا۔ اگر خدانخواستہ صرف ایک پارٹی یا ایک لیڈر آزادی حاصل کر بھی لیتا ہے تو یہ خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ وہ خود کو بلوچستان کا “مالک” سمجھ لے۔ وہ کہے کہ چونکہ قربانی اس نے دی جدوجہد اس نے کی، لہٰذا فیصلے کا حق بھی صرف اسی کو ہے۔ یہی سوچ جمہوریت کو کچل دیتی ہے۔

دنیا کی کئی تحریکوں میں ایسا ہوا ہے۔ اریٹیریا میں آزادی کی تحریک EPLF (Eritrean People’s Liberation Front) نے چلائی اور 1991 میں آزادی حاصل کی، لیکن آزادی کے بعد اسی تنظیم نے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ آج اریٹیریا دنیا کے بدترین آمرانہ ریاستوں میں شمار ہوتا ہے۔ زمبابوے میں رابرٹ موگابے نے آزادی کی جدوجہد میں کردار ادا کیا لیکن آزادی کے بعد وہ 37 سال تک اقتدار سے چمٹے رہے اور اپنے مخالفین کو دبایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک غربت، کرپشن اور جبر کی علامت بن گیا۔ کوبا میں فیدل کاسترو کی زیر قیادت کامیاب انقلابی تحریک کے بعد وہاں دہائیوں تک صرف ایک ہی پارٹی کی حکومت رہی اور آزادی کے خواب آمریت میں بدل گئے۔

اسی تناظر میں بلوچستان کی تحریک کو دیکھیں تو یہاں ایک سے زیادہ لیڈر اور تنظیمیں موجود ہیں جو مختلف انداز میں تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ بلوچ قیادت کے درمیان اختلاف ہونا کمزوری نہیں بلکہ ایک حفاظتی نظام ہے، جو نہ صرف مستقبل میں کسی ایک فرد یا جماعت کی آمریت کے خطرے کو روکے گا بلکہ آج بھی ریاست کو گہری چوٹ دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قابض ریاست اکثر کہتی ہے: ہم کس سے مذاکرات کریں؟ یہاں تو کئی تحریکیں چل رہی ہیں۔

میری ذاتی رائے میں کوئی بھی تحریک صرف ایک لیڈر یا ایک تنظیم کے ذریعے کامیاب نہیں ہوتی۔ تحریکیں قانون، انصاف اور داخلی نظم و ضبط سے مضبوط ہوتی ہیں۔ تنظیم میں اگر کوئی “بڑا” ہونا ہے، تو وہ صرف “قانون” ہونا چاہیے، جو انصاف، برابری، اور حالات کے مطابق خود کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اسی تسلسل میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ ہر مسلح تنظیم اپنی خودمختاری اور الگ شناخت رکھتی ہے مگر بعض مواقع پر یہ تنظیمیں مشترکہ کارروائیاں بھی کر سکتی ہیں۔ ایسی ہم آہنگ کارروائیاں دشمن کے لیے زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ جب قابض ریاست ایک وقت میں مختلف محاذوں پر دباؤ محسوس کرے گی تو اس کے لیے ردعمل دینا مشکل ہو جائے گا۔ مشترکہ کارروائیاں تنظیموں کے درمیان اعتماد اور اسٹریٹیجک ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں۔

اس لیے ابھی وقت ایک ہونے کا نہیں ہے بلکہ ہر لیڈر اپنی مسلح تنظیم کو مضبوط کرے گوریلا اور جنگی حکمت عملیوں میں اضافہ کرے، اور صحیح وقت آنے اور دنیا کے بدلتے ہوئے حالات تک بلوچ تحریک کسی نہ کسی صورت جاری رکھے۔

جب تک کوئی قوم آزادی حاصل نہ کرے، اس وقت تک ضروری نہیں کہ تمام مسلح یا سیاسی تنظیمیں ایک ہی لیڈر کے تحت یا ایک ہی حکمتِ عملی کے مطابق جدوجہد کریں۔ ہر تنظیم کو اپنی سمجھ، وسائل اور افرادی قوت کے مطابق مزاحمت جاری رکھنی چاہیے۔ کوئی تنظیم باہر سے ہتھیار حاصل کرے، کوئی خود تیار کرے کوئی بغیر کسی بیرونی مدد کے لڑے یہ سب ان کا اپنا حق اور حکمت عملی ہے۔

اگر ہر کوئی اپنے طریقے سے جدوجہد کرے تو اس سے تحریک کمزور نہیں ہوتی بلکہ دشمن کے لیے محاذ وسیع ہو جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سب کا مقصد ایک ہو: آزادی۔ ہمارا دشمن ایک ہے، لیکن مزاحمت کی کئی صورتیں اور چہرے ہونے چاہییں تاکہ قابض کو ہر محاذ پر چیلنج ملے۔

دنیا کی کئی تحریکوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ مکمل اتفاق کے بغیر بھی آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ویتنام، اریٹیریا، آئرلینڈ جیسے ممالک اس کی واضح مثالیں ہیں۔ بلوچ تنظیمیں بھی اپنی جگہ پر مزاحمت کرتی رہیں اور وقت کے ساتھ اپنی تنظیموں کو قانون، انصاف، اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھائیں۔ ہر لیڈر اپنی تنظیم کو جنگی حکمت عملی، گوریلا تربیت اور مزاحمتی صلاحیتوں کو مضبوط کرے۔ تنظیمیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہوں بلکہ رابطے میں رہیں۔ ہر تنظیم اپنے وسائل کے مطابق قابض ریاست کے خلاف جدوجہد جاری رکھے۔

آج دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ سری لنکا جیسا ملک اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ اگر تامل مزاحمت زندہ رہتی تو شاید آج وہ ایک بہتر پوزیشن میں ہوتے۔ اسی طرح پاکستان بھی سیاسی و معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ایسے وقت میں مزاحمت کا جاری رہنا اور ہر سمت سے کوشش کرنا نہایت ضروری ہے۔ سیاسی جماعتیں اندرونی اور عالمی سطح پر ایسی فضا ہموار کریں جس سے دنیا ہماری تحریک کو سمجھے، اور ممکنہ حمایت کا راستہ کھلے۔ کیونکہ جب عالمی حالات بدلتے ہیں، اور ریاست کمزور ہوتی ہے تب ہی تحریکیں مضبوط موقف سے کامیابی حاصل کرتی ہیں۔

ضروری ہے کہ تحریک، چاہے کسی بھی صورت میں ہو جاری رہے۔ یقیناً ایک دن ہم آزاد ہوں گے اور آزاد بلوچستان میں قانون اور انصاف کی بالادستی قائم ہوگی۔ آزاد بلوچستان میں بھی اختلافات باقی رہیں گے اور یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ قوم کچھ بنیادی باتوں پر ضرور متفق ہو گی۔ جیسے: قومی پرچم، قومی سلامتی، آئین کی بالادستی، انسانی حقوق، اور سب کے لیے مساوی قانون۔ لیکن اس کے باوجود سیاسی جماعتوں کے درمیان پالیسیوں پر تنقید اختلافِ رائے اور الیکشن کے وقت مختلف مؤقف رکھنا ایک صحت مند سیاسی کلچر کی علامت ہوگا۔

یہی اختلافات جمہوری نظام کے لیے ضروری اور فائدہ مند ہیں۔ ہر ملک قانون اور انصاف کے اصولوں پر چلتا ہے نہ کہ صرف قومی اتفاقِ رائے پر ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ صرف آزادی حاصل کر لینا کافی نہیں، اصل کامیابی تب ہوگی جب ہم آزاد معاشرے میں قانون کو سب سے بالا تسلیم کریں چاہے وہ فرد ہو، لیڈر ہو یا فوج۔ اگر کبھی فوج یا کوئی ادارہ خود قانون توڑنے لگے تو شہریوں کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ آواز اٹھائیں، سوال کریں اور تنقید کریں۔ یہی شعور، یہی آزادی اور یہی حقیقی جمہوریت ہے جس کے لیے آج قربانیاں دی جا رہی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔