کوئٹہ بلوچستان اسمبلی نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت میں ایک نیا انسداد دہشتگردی قانون منظور کیا ہے، جس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کسی بھی شہری کو بغیر عدالت میں پیش کیے تین ماہ تک حراست میں رکھ کر تفتیش کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
یہ قانون، جسے انسداد دہشتگردی (بلوچستان ترمیمی) بل 2025کہا جا رہا ہے، انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 میں ترمیم کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اس کے تحت حکومت یا مجاز ادارے جیسے کہ پاکستانی فورسز، خفیہ ادارے اور پولیس کسی بھی شخص کو شک کے بنیاد پر تین ماہ تک حراست میں رکھ سکتے ہیں۔
بل کے مطابق اگر حراست کا حکم مسلح افواج یا سویلین مسلح افواج کی جانب سے جاری کیا جائے تو تحقیقات ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کرے گی جس میں پولیس، انٹیلیجنس ایجنسیوں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران شامل ہوں گے۔
اس قانون کے مطابق تین ماہ کی ابتدائی حراست کے بعد مزید توسیع آئین کے آرٹیکل 10 کے تحت ممکن ہوگی، جو شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔
قانون کی منظوری کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی رہنماؤں نے اس پر شدید تنقید کی ہے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس قانون کو شہریوں کے بنیادی حقوق، جیسے کہ منصفانہ سماعت اور قانونی عمل، کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
سینیٹر جان محمد بلیدی نے پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون بلوچستان میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے اور بلوچستان کو پولیس اسٹیٹ بنانے کا خدشہ ہے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ قانون انسداد دہشتگردی کی کوششوں کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اور بلوچستان میں پہلے سے موجود مسائل مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
بلوچستان حکومت کی جانب سے نافذ کردہ یہ قانون آئندہ چھ سال تک بلوچستان میں نافذ العمل رہے گا۔