بلوچستان میں غذائی قلت کا بحران، بچوں کی زندگی داؤ پر

21

بلوچستان میں بچوں کی غذائی قلت میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے ، اگر صورتحال کو کنٹرول نہیں کیا گیا تو آگے چل کر انسانی بحران ہوسکتا ہے ۔

بلوچستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد غذائی قلت، غربت، ناقص صحت کی سہولیات اور پینے کے صاف پانی کی کمی کا شکار ہے۔ یہ بحران اب محض صحت کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ انسانی حقوق کا المیہ بن چکا ہے۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 75 فیصد سے زائد بچے خوراک اور اسٹنٹنگ (قد کی کمی) کا شکار ہیں جبکہ صرف 25 فیصد بچوں کو خوراک دستیاب ہیں۔

جس کی بنیادی وجوہات میں غربت اور بے روز گاری ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں خاندان روزمرہ کی خوراک پوری نہیں کر پاتے۔

صحت کی سہولیات کا فقدان

بلوچستان کے دیہی علاقوں میں بنیادی مراکز صحت ناپید یا غیر فعال ہیں۔

پینے کا پانی: آلودہ پانی

پیٹ کی بیماریوں اور غذائی کمی کو بڑھا رہے ہیں ۔ جبکہ سیاسی بے حسی: حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی عدم توجہ کے باعث صورتحال بگڑ رہی ہے ۔

اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں ہر دوسرے بچے کو غذائیت کی کمی کا سامنا ہے۔

نیوٹریشن سروے کے مطابق بلوچستان کے تمام 36 اضلاع میں بچوں کو غذائیت میں کمی کا سامنا ہے، ماہرین کے مطابق شدید غذائی قلت دو اقسام کی ہوتی ہیں۔ پہلی قسم میں بچے لاغر، سوکھے اور دبلے پن کا شکار ہوتے ہیں۔ دو سال تک متاثرہ بچہ اکیوٹ فیز میں رہتا ہے جس کے بعد کرونک ایج میں چلا جاتا ہے، جس میں اس کا قد اور دماغ دوسرے نارمل بچوں کی طرح نہیں ہوتا، اس کا علاج نہیں ہوتا بلکہ اسے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

شدید غذائی قلت کا شکار ایک وہ بچہ ہوتا ہے جو پیچیدگی کے بغیر پیدا ہوتا ہے اور دوسرا پیچیدگی کے ساتھ پیدا ہونے والا بچہ ہے، جو بچہ پیچیدگی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اس کا علاج خوراک کی فراہمی سے نہیں ہوتا بلکہ اس کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑتا ہے۔

واضح رہے غذائی سروے کے مطابق بلوچستان میں صاف پانی کی فراہمی کی شرح سب سے کم 75.3 فیصد ہے جس سے غذائی قلت اور دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ عالمی بینک کے تعاون سے بلوچستان کے سات اضلاع، نوشکی، خاران، ژوب، قلعہ سیف اللہ، کوہلو، سبی اور پنجگور میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی سکریننگ اور خوراک کی فراہمی کا سلسلہ جاری تھا تاہم وہ اب غیر فعال ہوچکا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ایسے بچوں کی نہ صرف نشوونما متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ قوت مدافعت کمزور ہونے کے سبب مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایسے بچوں کیلئے خسرہ جان لیوا ہوتا ہے ان کی نشونما باقی بچوں سے بہت ہی کم ہوتی ہے اور ان کی ہائی ویٹ کم ہوتی ہے جس لیے ان کو الگ پروٹوکول دینا پڑتا ہے۔

بلوچستان میں 2018 سے نیوٹریشن ایمرجنسی نافذ ہے تاہم فنڈز جاری نہ ہونے کی وجہ سے متعلقہ محکمہ غذائی قلت پر قابو پانے کیلئے تا حال گرانٹ کا منتظر ہے۔

فنڈز کی عدم فراہمی سے نیوٹریشن ڈائریکٹوریٹ کو صورتحال سے نمٹنے کیلئے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔

بلوچستان میں نیوٹریشن کے حوالے سے کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت، بچوں کو ماں کا دودھ پلانے میں کمی، سیلاب، خشک سالی اور غذائی قلت اس کی اہم وجوہات ہیں۔

بلیدہ کے رہائشی صبا اپنی عمر کے ساتھ کہیں چھوٹی نظر آتی ہیں ، والدین کے مطابق وہ اپنے بچے کے خوراک پورا نہیں کر پارہے ہیں ، انکے والد نے دی بلوچستان پوسٹ نیوز کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے بارڈر بندش کے بعد بچی کا دودھ بند ہوگیا ہے اور گھر میں تنگ دستی کے سبب جینا مشکل ہوگیا ہے ۔ یہ صرف صبا کی کہانی نہیں ہے کہ بلکہ بلوچستان بے روزگاری کی وجہ سے اکثر گھروں کی داستان کچھ مختلف نہیں ہے ۔

صبا کے والد نے ہمیں بتایا کہ خوارک نہ ہونے کی وجہ سے بچی کا جسم اجاڑ رہی ہے جبکہ علاقے میں طبی مراکز نہ ہونے کی وجہ تربت یا کراچی جانے کےلیے علاج تو دور کی بات ہے انکے پاس کرایہ تک پیسے نہیں ہیں ۔

محکمہ صحت بلوچستان میں بظاہر کرپشن کو اس صورت حال کی اہم وجہ بتائی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں بچوں کی صحت سمیت ملیریا، پولیو، ٹائیفائیڈ اور دیگر کئی بیماریوں کے لیے ایک خاطر خواہ رقم مقرر کی گئی ہے۔ تاہم کرپشن اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے صحیح بنیادوں پر کام نہ ہونے کی وجہ صورتحال بدتر ہوتا جارہا ہے ۔