بلوچستان میں ریاستی مظالم کا تسلسل، 15 دنوں میں 20 بلوچ نوجوانوں کی لاشیں برآمد۔ بلوچ ویمن فورم

26

بلوچ ویمن فورم نے بلوچستان میں پاکستانی فورسز اور ڈیتھ اسکواڈز کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کے حوالے تفصیلی رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جون 2025 کی پہلی پندرہ دنوں میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 20 بلوچ نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔

 بلوچ ویمن فورم کے رپورٹ کے مطابق ان تمام واقعات میں براہِ راست ریاستی فورسز ادارے یا ان کے حمایت یافتہ مقامی عسکری گروہ ملوث تھے۔

ویمن فورم کے مطابق یہ قتل عید کے پرمسرت موقع پر بلوچ عوام کے لیے سوگ کی شکل اختیار کر گئیں جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں، تنظیم نے ان واقعات کو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فوری بین الاقوامی مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔

بلوچ ویمن فورم کے مطابق جون کے پندرہ دنوں میں ماورائی عدالت قتل کئے گئے افراد میں 13 جون کو سیفہ بلوچ اور شاہ جان بلوچ جو پہلے سے جبری طور پر لاپتہ تھے ریاستی اداروں کی تحویل میں رہنے کے بعد جعلی مقابلے میں قتل کر دیے گئے۔

ان کی لاشیں ورثاء کو نہ دکھائی گئیں اور خاموشی سے دفنا دی گئیں۔

تنظیم کے مطابق 12 جون کو سعود نیچاری کو قلات کے تحصیل منگوچر میں عبداللہ بلوچ کو تُمپ میں اور کامران جتک کو خضدار میں پاکستانی فورسز اور انکے حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ نے نشانہ بنا کر قتل کیا۔

اسی طرح 11 جون کو سوئی کے علاقے سے علی بیگ بگٹی، یوسف وڈو بگٹی اور زاہد بگٹی کی مسخ شدہ لاشیں ملیں، فورم کے مطابق مذکورہ تینوں افراد کو کئی مہینے قبل ریاستی اداروں نے حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کردیا تھا۔

11 جون کو پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ علی محمد اور نظر بلوچ کی لاشیں برآمد ہوئیں نظر بلوچ کا بھائی گلداد تاحال ریاستی تحویل میں ہے۔

رواں مہینے 9 جون کو بلوچستان کے علاقے کولواہ میں پاکستانی فورسز کی آپریشن کے دوران حراست میں لئے جانے والا طالبعلم نواب بلوچ اگلے روز تشدد زدہ حالت میں مردہ پایا گیا۔

تنظیم کے مطابق رواں مہینے عید سے ایک روز قبل 6 جون کو سعید مری اور عید محمد مری سمیت چار افراد کی لاشیں ملیں، سعید مری کے دو بیٹے پہلے ہی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جعلی مقابلوں میں قتل ہو چکے تھے۔

3 جون کو سید احسان شاہ کو کوئٹہ کے علاقے لک پاس میں ایف سی اہلکاروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا اور خضدار میں مسلم بلوچ کو مقامی ڈیتھ اسکواڈ نے نشانہ بنایا، جب کہ قلات سے دو لاپتہ نوجوانوں سمیع اللہ بلوچ اور بسم اللہ بلوچ کی لاشیں بھی برآمد ہوئیں۔

اسی طرح 2 جون کو وحید بلوچ کو تربت کے سول اسپتال سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور دو دن بعد اس کی گولیوں سے چھلنی لاش ملی۔

بلوچ ویمن فورم کی جانب سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاستی ادارے بلوچ عوام کو بے دردی سے قتل کر رہے ہیں اور ان پر کوئی گرفت نہیں بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل ایک معمول بن چکا ہے اگر ان پالیسیوں کو نہ روکا گیا تو صورتحال مزید خراب ہو گی۔

تنظیم بین الاقوامی برادری اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری ان مظالم کا نوٹس لیں اور فوری مداخلت کریں۔