انسدادِ دہشت گردی ایکٹ
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان کی متنازعہ حکومت کے غیر سنجیدہ فیصلے لینے کا تشویشناک سلسلہ جاری ہے۔ جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کے خلاف بلوچستان بھر میں لوگ سراپا احتجاج ہیں، تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کی متنازعہ حکومت بلوچستان اسمبلی میں انسدادِ دہشت گردی (بلوچستان ترمیمی) ایکٹ 2025 کی منظوری دے کر جبری گمشدگیوں جیسے غیر آئینی اقدام کو قانونی شکل دے رہی ہے۔
بلوچستان انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 2025 سیکیورٹی ایجنسیوں کو باضابطہ چارجز کے بغیر کسی بھی شخص کو عدالتی عمل سے گزارے بغیر تین مہینے تک حراست میں رکھنے کے وسیع اختیارات دیتا ہے، جو ایک ناقابل قبول اقدام ہے۔ اس سے پاکستان کے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سلب ہوں گے۔
پاکستان اور بلوچستان کی موجودہ متنازعہ حکومتیں عرصے سے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں سے انکار کرتی آئی ہیں، تاہم اس ایکٹ کی منظوری سے یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کو اب جھٹلانا ممکن نہیں رہا۔
بلوچستان اور عالمی سطح پر جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی متنازعہ حکومت جبری گمشدگیوں کو قانونی شکل دے رہی ہے، تاکہ ماورائے آئین ریاستی اقدامات کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں کو قانونی جواز کے ذریعے روکا جا سکے۔
جبری گمشدگیوں کا سنگین مسئلہ سنجیدہ اور انسانی بنیادوں پر مبنی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے، جو موجودہ حکومت لینے سے قاصر ہے۔ اس متنازعہ ایکٹ سے اگرچہ ریاستی جبر کو قانونی جواز حاصل ہو جائے گا، لیکن یہ مسئلہ ختم نہیں ہوگا، اور بلوچستان سمیت عالمی انسانی اداروں میں اس کے خلاف آوازیں اُٹھتی رہیں گی۔