آزادی فقط مردوں کی زبان کا نعرہ نہیں، عورتوں کی آستینوں میں چھپی ہوئی آگ بھی ہے – مجید برگیڈ کا پیغام شائع

443

بلوچ لبریشن آرمی کی ‘فدائی’ یونٹ مجید برگیڈ کی جانب سے آج ایک پیغام شائع کیا گیا ہے۔ یہ پیغام سمعیہ قلندرانی کے برسی کے موقع پر شائع ہوئی جس نے 2023 میں آج کے دن تربت میں پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے افسران پر مشتمل اہم قافلے کو دھماکے میں نشانہ بنایا تھا۔

ویڈیو کے آغاز میں سمیعہ قلندرانی کے پہلے سے شائع شدہ پیغامات کیساتھ ان کی تصاویر دکھائی گئی ہے جبکہ دوسرے  حصے میں بی ایل اے مجید برگیڈ کی خاتون فدائی نامعلوم مقام سے اپنا پیغام دے رہی ہے۔

ویڈیو میں کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ “کچھ خون زمین پر گرتے نہیں، زمین میں رچ جاتے ہیں۔ وہ خالی دھبے نہیں چھوڑتے بلکہ پرچم بن جاتے ہیں۔ سمعیہ بلوچ کا خون ایسا ہی ایک پرچم ہے، جو اب وقت کے چہروں پر لہرا رہا ہے۔ وہ صرف ایک فرد نہیں، ایک مکمل صدی کی علامت تھی۔ وہ ان ماؤں کی بیٹی تھی جنہوں نے اپنی کوکھ میں تاریخ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے کردار پیدا کیے۔ سمعیہ وہ سوال تھی جو دشمن کے جوابوں میں کبھی سمویا نہ جا سکا، وہ پکار تھی جو بندوق کی گرج سے بھی زیادہ واضح تھی، اور وہ خامشی تھی جس میں ایک پوری ملت کی چیخ گونجتی تھی۔ سمعیہ کی شہادت اس مٹی کی وہ سطر ہے جسے دشمن جلا نہیں سکا، بلکہ جس نے اس کی سلطنت کے ستونوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔”

خاتون فدائی مزید کہتی ہے کہ “ہم ایک ایسی تہذیب کے وارث ہیں جہاں عورت صرف ایک صنف نہیں بلکہ ایک وجود ہے جو جب روئے تو دعا بن جائے اور جب للکارے تو قضا۔ ہمارے دشمن نے جب یہ سمجھا کہ بلوچ عورت صرف تماشائی ہے تو سمعیہ نے اپنی شہادت سے ثابت کیا کہ وہی جنگ کا سینہ ہے، وہی صبر کا خنجر، وہی خامشی کی للکار ہے۔ آج ہماری پہچان پر، ہماری زبان پر، ہمارے خیال پر اور ہمارے جسموں پر قبضہ کرنے والا وہی دشمن ہے جو ہماری عورت کو کمزور سمجھ کر اپنی فتح کو یقینی جانتا تھا۔ لیکن بلوچ عورت نے اسے یہ سبق دیا کہ اس سرزمین پر ہر بیٹی سمعیہ ہے، ہر ماں شاری ہے، اور ہر بہن ماہل ہے۔”

مجید برگیڈ کی فدائی کہتی ہے کہ “یہ جنگ اب صرف پہاڑوں میں نہیں لڑی جا رہی، یہ اب ہمارے اندر، ہماری آنکھوں، ہمارے دل، اور ہماری آواز میں لڑی جا رہی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جہاں کوئی بیٹی صرف ماں کے آنسو پونچھنے کے لیے نہیں، تاریخ کا راستہ بدلنے کے لیے کھڑی ہو رہی ہے۔ دشمن کو اب ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم صرف بین کرنے والی قوم نہیں، ہم بینر اٹھانے والی نسل ہیں، جن کے پرچم پر عورتوں کے خون سے لکھا گیا ہے کہ آزادی فقط مردوں کی زبان کا نعرہ نہیں، عورتوں کی آستینوں میں چھپی ہوئی آگ بھی ہے۔”

وہ مزید کہتی ہے کہ “جو قوم اپنی بیٹیوں کے تابوتوں کو پرچم کا مقام دیتی ہے، وہ کبھی شکست نہیں کھاتی۔ سمعیہ کی صدا ہمیں پکار رہی ہے کہ اگر تم زندہ ہو، تو صرف سانس نہ لو، اس آزادی کی سانس لو جو دشمن کی گولیوں کو روکنے کا ہنر رکھتی ہے۔ ہر وہ لمحہ جب ہم چپ رہتے ہیں، دشمن کی جیت ہے۔ ہر وہ لمحہ جب ہم سمعیہ کو صرف تصویروں میں یاد کرتے ہیں، جدوجہد کا قتل ہے۔ لیکن جب ہم اس کے خواب کو اپنا راستہ بنا لیں، جب ہم اس کی پکار کو اپنے دل کی دھڑکن بنا لیں، تو پھر کوئی طاقت اس قوم کو غلام نہیں رکھ سکتی۔”

مجید برگیڈ کی فدائی کہتی ہے کہ “یہ وقت ہے کہ ہم صرف ماتم نہ کریں بلکہ وعدہ کریں۔ وعدہ کریں کہ ہم اب اپنی بیٹیوں کو تاریخ کا حاشیہ نہیں، عنوان بنائیں گے۔ وعدہ کریں کہ ہم دشمن کو اس کی زبان میں جواب دیں گے، لیکن اس لہجے میں جو صرف مظلوم کی نہیں، بیدار مزاحمت کی پہچان ہو۔ وعدہ کریں کہ ہم اس جنگ کو صرف ردعمل نہیں، ایک انقلاب بنائیں گے۔ وعدہ کریں کہ سمعیہ کا خون ضائع نہیں جائے گا، بلکہ وہ ہر بیٹی کے قدم میں ایک سمت، ہر ماں کی آنکھ میں ایک خواب، اور ہر بلوچ کی رگ میں ایک قسم بن جائے گا۔”