نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان نے یوم آسروخ کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 28 مئی 1998 بلوچ قوم کی تاریخ کا اہم حصہ بن چکا ہے جب ریاست نے اپنی طاقت کی نمائش کے لیےمحکوم بلوچوں کی سرزمین کو چن کر، ان کے جسم و جاں، ماحول اور مستقبل کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک خطرناک تجربہ کیا۔ یہ عمل ریاستی بے حسی اور نوآبادیاتی سوچ کا مظہر تھا، جہاں انسانی جان، مقامی معیشت، قدرتی نظام اور آئندہ نسلوں کی صحت کو بغیر کسی سائنسی تحقیق، ماحولیاتی ضابطے اور دیگر احتیاطی تدابیر کے ایٹمی تجربے کے ذریعے قربان کر دیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ کسی قوم کی ترقی محکوموں کی بربادی اور خاتمے کی شرط پر تعمیر نہیں ہو سکتی اور نہ ہی قوموں کے حقوق ، مرضی اور منشاکو ملکی مفاد کی آڑ میں پامال کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں جو تابکاری پھیلی، اس نے بلوچستان کے قدرتی نظام کو شدید نقصان پہنچایا۔ زیر زمین پانی آلودہ ہوا، سالوں تک چراگاہیں ختم ہو گئیں، خشک سالی بڑھ گئی، اور بلوچ عوام کی معیشت کا بنیادی ذریعہ’’ مقامی زراعت و مالداری ‘‘کو شدید نقصان پہنچا ۔ زمین کی زرخیزی میں کمی، جانوروں میں بیماریاں، اور پینے کے پانی کی قلت نے پورے معاشرے کو بنیادی بقاء کی جدوجہد کی جانب دھکیل دیا۔ یہ سب کچھ محض نمائشی طاقت کے لیےایک سائنسی کامیابی کے نام پر کیا گیا، جس کی قیمت آج تک چاغی اور ارد گرد کے علاقے کے لوگ اپنے جسم اور جان سے چکا رہے ہیں۔
ترجمان نے کہاکہ ایٹمی دھماکوں کے بعد ان علاقوں میں کینسر، تھلیسمیا، جلدی بیماریوں اور بچوں میں غذائی قلت جیسی بیماریاں عام ہو گئیں۔ کئی خاندانوں کے چراغ اس بیماری میں مبتلا ہوکر معزور ہوئےاور کئی قربان ہوئےلیکن نہ ریاست نے ان کی سنوائی کی، نہ آج تک کوئی معقول طبی سہولیات فراہم کی گئیں۔ یہ دھماکے کوئی سائنسی تجربہ نہیں بلکہ نوآبادیاتی سوچ کا مظہر تھے، جہاں اسلام آباد نے بلوچستان کو ایک تجربہ گاہ سمجھ کر استعمال کیا۔ نہ صرف ایٹمی تجربات، بلکہ جبری گمشدگیاں، فوجی آپریشن، وسائل کی لوٹ مار، اور ماحولیاتی آلودگی بھی اسی سوچ کے مظاہر ہیں۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ہونے والے ہر عمل کو ریاستی مفاد کی آڑ میں چھپا دیا جاتا ہے، جبکہ محکوم اقوام اپنی جان، زمین، ماحول، اور نسلوں کی قربانی دیتے آ رہے ہیں۔
مزید کہاکہ اقوام متحدہ، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA)، اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسے بین الاقوامی ادارے بھی اس ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ نہ انہوں نے چاغی کا دورہ کیا، نہ تابکاری کے اثرات پر کوئی سائنسی یا طبی رپورٹ شائع کی، نہ ہی متاثرہ لوگوں کے لیے عالمی سطح پر آواز بلند کی۔ یہ خاموشی صرف غفلت نہیں، بلکہ اس ظلم میں شراکت داری کے مترادف ہے۔ ۔ 28 مئی صرف راسکوہ کا زخم نہیں، بلکہ پورے بلوچستان کی چیخ ہے جسے دنیا نے سننے سے انکار کیا، بلوچ قوم اس سیاہ دن کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔