گنج آباد کے شفق کی لالی نبیل ہوت
تحریر: جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ سرزمین ہمیشہ سے قربانیوں اور جدوجہد کی علامت رہی ہے۔ یہاں کی مٹی نے ایسے سپوت پیدا کیے ہیں جنہوں نے اپنے لہو سے تاریخ کے صفحات کو سرخ کیا اور جن کے کارنامے وقت کی گرد میں دھندلا نہیں سکتے۔ ان میں سے ایک نام نبیل ہوت عرف “علی” کا ہے جس نے نہ صرف اپنی جوانی، بلکہ اپنا خون اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے قربان کر دیا۔
جنگ جنونیت نہیں جب زمین کی حفاظت کے لیے لڑی جائے تو محبت بن جاتی ہے۔ لوگ اپنے محبوب کو ٹوٹ کر چاہتے ہیں اور جب وطن غلام ہو تو جنگ ایک غیرت مند شخص کی محبت بن جاتی ہے۔
گنج آباد کے جوانوں نے جنگ سے محبت میں وطن کا نام روشن رکھا اور گنج آباد کو تاریخ کے اوراق میں دوام بخشا۔
یہ پرانی بات ہے
جو آمین کے زمانے میں کہی جاتی رہی ہے: “گوگدان میں دو دستاں ملیت”۔
نبیل ہوت عرف علی ایک کوہ پہاڑ
گنج آباد کے بہادر بیٹے، نبیل ہوت عرف “علی” نے اپنی شجاعت سے جو عزت کمائی، آج گنج آباد کے مکین سر فخر سے بلند کیے، سینہ تان کر اور ایڑیاں غرور سے رگڑتے ہیں۔
جنگ کی ازلی محبتوں اور ابدی جنون سے دور میری ماں نے نبیل کی شہادت کے بعد ایک دن افسوس بھرے لہجے میں کہا
“نبیل کوہ تھا جس کے خوف سے دشمن لرزتے رہے مگر نبیل بے موت مرا”
یہ الفاظ میرے لیے صدمہ بن گئے۔ میں حیرت میں گم رہا کہ میری ماں ایسا کیوں کہہ رہی ہے۔
لیکن یہ سچ تھا نبیل واقعی ایک کوہ پہاڑ تھا جس کے خوف سے دشمن اور اس کے آلہ کار ہمیشہ کانپتے رہے۔نبیل نے اپنی قربانی سے گنج آباد کے ماؤں بہنوں کو متاثر کیا تھا تبہی ان کے شہادت کی خبر سے ہر گھر ماتم کدہ بنا رہا۔ہر ماں نے اشک بہائے اور ہر بہن نے سوگ منایا۔
نبیل عرف علی بی ایل اے کا شہری کماندار تھا جنہیں وقت نے عمر سے پہلے جوان کر دیا اور حالات نے کم عمری میں ہی پختہ کر کے کندھَن بنا دیا۔
جب دشمن نے پہلی دفعہ نبیل پر قاتلانہ حملہ کیا وہ صرف سولہ سال کا لڑکا تھا۔ رات کے دو بجے سے صبح چھ بجے تک اُس نے اپنی بہن کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کیا اور گھر کا دفاع کیا۔
جب بہت ہی سویرے صبح گنج آباد کے مکین اُس کے گھر پہنچے تو ایک خونی منظر اُن کا منتظر تھا
نبیل اور اُس کی بہن خون میں لت پت تھے لیکن دشمن کی لاشیں بھی بکھری ہوئی پڑی تھیں۔
جس مقامی دلال نے شناخت کے بہانے اپنے ضمیر کا سودا کیا تھا اُس نے ماتھے پر گولی کھا کر رسوائی کو اپنے نام لکھوا دیا۔
گنج آباد کے مکین. کہتے ہیں کہ مین گیٹ پر فوجیوں کے پشاب پڑے تھے۔
پانچ سال ریاستی تشدد سہہ کر اور اذیت گاہوں سے گزرنے کے بعد نبیل اب اکیس سال کا ہو چکا تھا۔
جیل سے رہا ہونے کے بعد وہ گھر آنے کے بجائے وطن کے دفاع کا بیڑا اٹھا کر پہاڑوں میں جا بسا۔
اگلے سترہ سالوں میں نبیل نہ صرف دودا کے بھائی بالاچ کی طرح دشمن پر کہر بن کر لڑا بلکہ کئی نوجوانوں کو بھی جنگ کے لیے تیار کیا۔
وہ اُن نوجوانوں کے ساتھ تھا جن میں سے کچھ اُس رات اُس کے ہمراہ تھے جب اُسے دشمن نے آلہ کار کے ذریعے شہید کیا۔
جس رات نبیل کو شہید کیا گیا سنا ہے کہ اس رات دشمن اور اس کے آلہ کاروں نے جشن منایا اور لمبی نیند سو گئے مگر اُنہیں یہ معلوم نہ تھا کہ نبیل اپنے پیچھے ایک لشکر چھوڑ گیا ہے۔
بلوچ مزاحمت ایک تسلسل، ایک تحریک
بلوچ مزاحمت کی تاریخ نبیل پر ختم نہیں ہوتی۔ یہ تو اس دن سے جاری ہے جب پہلی بار سرزمین بلوچستان پر قبضہ کیا گیا۔ چاہے وہ میر بالاچ ہو، شہید نواب اکبر بگٹی، استاد اسلم، چیرمین غلام محمد، مجید لانگو، بانک کریمہ، ڈاکٹر ماہ رنگ یا ڈاکٹر اللہ نذر ہر ایک کردار بلوچ تحریک کا ایک لازوال باب ہے۔
بلوچ جدوجہد کسی تعصب یا نفرت کا نام نہیں بلکہ شناخت، ثقافت اور اپنے حقِ آزادی کی تحریک ہے۔ یہ تحریک گولیوں سے نہیں دبائی جا سکتی کیونکہ یہ دلوں سے نکلتی ہے اور شہیدوں کے خون سے سینچی گئی ہے۔
گنج آباد کا فخر
نبیل ہوت جیسے سپوت گنج آباد کا فخر اور بلوچ قوم کا سرمایہ ہیں۔ ان کی کہانی نہ صرف ہمیں حوصلہ دیتی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔ وہ کوہ پہاڑ تھا جس کا سایہ آج بھی دشمن کے لیے خوف اور اپنی قوم کے لیے سکون ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں