کیپٹن امجد بشام عرف شمس ساحر اور لیفٹیننٹ صبر اللہ معصوم عرف واھگ جان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بی ایل ایف

430

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ سترہ مئی 2025 کو اربن مشن کے دوران تنظیم کے سینیئر ساتھی کیپٹن امجد بشام عرف شمس ساحر اور لیفٹینینٹ صبراللہ بلوچ عرف واھگ جان نے صبح سات بجے کیچ کے مرکزی شہر تربت میں پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹر “اصغر گیٹ” پر گرنیڈ لانچر سے حملہ کیا جو عین نشانے پر جا گرے جس کے نتیجے میں فورسز کا ایک اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔ کاروائی کے بعد دونوں ساتھی وہاں سے نکلے تو ریاستی فورسز نے فضاء میں سر ویلینس ڈرون اڑائے اور ڈرون نے ساتھیوں کا تعاقب کیا اور دشمن فورسز نے آگے راستہ بلاک کردیا جس کے نتیجے میں ایک جھڑپ شروع ہوئی۔ دس منٹ جاری جھڑپ میں دشمن کے دو اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوا جبکہ کیپٹن امجد بشام عرف شمس ساحر اور لیفٹینینٹ صبر اللہ عرف واھگ جان شہید ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ شہید امجد بشام بلوچ کیپٹن اور شہید صبراللہ بلوچ لیفٹینینٹ کے رینک پر فائز تھے، بلوچستان لبریشن فرنٹ اپنے شہید ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے اور اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ شہدا کا مشن قومی آزادی کی حصول اور آزاد بلوچستان کی تعمیر کی صورت میں پایہ تکیمل تک پہنچانے میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا۔

ترجمان نے کہا کہ امجد بشام بلوچ نہایت باصلاحیت، سیاسی طور پر پختہ اور باشعور نوجوان تھے۔ ان میں قیادت، بصیرت اور قومی خدمت کا ایسا حسین اور باوقار امتزاج تھا۔ ان کی علمی استعداد اور روایتی و پروفیشنل تعلیم کا معیار اس پائے کا تھا کہ وہ اگر چاہتے تو ایک آرام دہ اور آسودہ زندگی گزار سکتے تھے۔ مگر امجد نے آسان زندگی کو مسترد کیا اور مادرِ وطن کی آزادی اور قومی وقار کے لیے مزاحمت کا مشکل راستہ چُنا۔

انہوں نے کہا کہ شہید امجد بشام زمانہ طالب علمی سے ایک پختہ سوچ اور قائدانہ صلاحیتوں کے مالک تھے جنکی وجہ سے وہ طلبہ و عوامی سیاست میں تربت کے عوام میں مقبول تھے۔ 2017 سے انہوں نے عسکری محاذ پر شمولیت اختیار کی اور دشمن کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں میں سرگرم رہے۔
27 جنوری 2017 کو پاکستانی فورسز نے انہیں ان کے بھائی برکت بشام کے ساتھ جبری طور پر لاپتہ کیا۔ اٹھارہ ماہ کی گمشدگی کے دوران امجد کو بدترین جسمانی و ذہنی اذیتوں سے گزارا گیا لیکن ان کے حوصلے کو جھکا نہ سکے۔ وہ 29 جولائی 2018 کو جب بازیاب ہوئے تو ان کا جسم تشدد سے ٹوٹ چکا تھا، لیکن دل خوف سے آزاد ہو چکا تھا کچھ ہی دنوں میں انہوں نے بغیر کسی توقف کے دوبارہ تحریک آزادی کا عملی حصہ بن گئے۔
رہائی کے بعد انہوں نے دوبارہ شہر میں مزاحمتی سرگرمیوں کو منظم انداز میں جاری رکھا۔ مئی 2022 میں ایک مشن کے دوران ریاستی افواج نے انہیں گھیر لیا مگر امجد بشام بلوچ نے جرأت، عسکری مہارت اور بے خوفی سے دشمن کا محاصرہ توڑا اور کامیابی سے نکل گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ تربت یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ میں بی ایس کے آخری سمسٹر کے طالبعلم تھے اور ساتھ ہی ایک نجی اکیڈمی میں انگریزی زبان اور کمپیوٹر کی تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔ ان کی ذات شعور، قومی خدمت، قربانی اور بہادری کا ایک مکمل باب تھی۔

انہوں نے کہا کہ شہید صبراللہ بلوچ ایک خاموش مزاج مگر پُرعزم اور ثابت قدم ساتھی تھے جنہوں نے کم عمری میں ہی بلوچ قومی تحریک سے وابستگی اختیار کی۔ 2021 میں انہوں نے باقاعدہ طور پر تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی تنظیمی و عوامی نیٹ ورکس میں متحرک کردار ادا کرنے لگے۔ ان کی صلاحیت، سنجیدگی اور تنظیمی فہم نے انہیں کم وقت میں ان افراد میں شامل کر دیا جن پر نہ صرف اعتماد کیا جاتا تھا بلکہ عملیت اور رازداری کی ذمہ داریاں بھی سونپی جاتی تھیں۔

ترجمان نے کہا کہ 2023 کے دوران وہ ریاستی فورسز کی نظروں میں آ گئے اور انہیں سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑا، مگر صبراللہ نے پیچھے ہٹنے یا خاموش ہونے کے بجائے مزاحمت کی راہ اپنائی۔ وہ عوامی سرگرمیوں سے نکل کر مسلح مزاحمت کی صف میں شامل ہو گئے اور اگلی صفوں میں جنگی فرائض انجام دینے لگے۔ وہ نہایت خفیہ اور پیچیدہ مشن کا حصہ رہے اور ایک عرصے تک دشمن کو چکمہ دے کر مختلف علاقوں میں متحرک رہے۔

انہوں نے کہا کہ صبراللہ ایک انتھک اور پرعزم ساتھی تھے۔ وہ ذاتی شہرت یا تعریف کے متلاشی نہیں تھے، بلکہ آزادی کے مقصد سے وابستگی اور نظریے کی سچائی پر یقین رکھتے ہوئے، عزم و استقلال کے ساتھ آخری دم تک جدوجہد کرتے رہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ساتھیوں کی شہادت سے تنظیم نے بہادر اور فرض شناس ساتھیوں کو کھودیا ہے، لیکن ان کی قربانی ہماری جدوجہد کا وہ روشن چراغ ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنی رہے گی۔