کوئٹہ: فورسز ہاتھوں لاپتہ طالبہ ماجبین بلوچ تاحال منظرعام پر نہیں آسکیں

150

پاکستانی فورسز نے کوئٹہ سے طالبہ اور انکے بھائی کو حراست بعد اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے اطلاعات کے مطابق گذشتہ روز 29 مئی کو پاکستانی فورسز فرنٹیئر کور و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے سول ہسپتال کوئٹہ سے بلوچستان کے علاقے بسیمہ کے رہائشی ماہ جبین بلوچ کو حراست میں لیکر اپنے ہمراہ لے گئے تھے جو تاحال منظرعام پر نہیں آسکے ہیں۔

ماہ جبین بلوچ کے اہلخانہ نے واقعہ کے حوالے سے گذشتہ روز کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا ہے کہ خاتون کوئٹہ میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے رہائش پزیر تھی جبکہ اس سے قبل 21 مئی کو ماہ جبین کے بھائی محمد یونس کو پاکستانی فورسز نے انکے گھر سے چھاپہ مار کر اپنے ہمراہ لے گئے تھے جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔

لواحقین نے کہا ہے کہ دونوں بھائی بہن کو حراست میں لئے جانے کے دوران فورسز حکام نے کوئی ایف آئی آر اور قانونی دستاویز نہیں دکھائے اور خاتون و انکے بھائی منظرعام پر نہیں لائے گئے ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی و دیگر سیاسی و انسانی حقوق کے اداروں نے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں بلوچ خاتون کی حراست بعد جبری گمشدگی و بلوچستان ایک بار پھر جبری گمشدگیوں میں شدت اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان واقعات کی شدید مذمت کی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ء سمی دین بلوچ نے اس حوالے سے اپنے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ طالبہ ماہ جبین بلوچ کی جبری گمشدگی بلوچستان میں ریاست کی جارحانہ اور منظم پالیسی کا تسلسل ہے جس کے تحت روزانہ جبری گمشدگی و ماورائے قتل کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، پہلے بلوچ مرد جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنتے جبکہ اب بلوچ خواتین بھی جبری گمشدگیوں سے محفوظ نہیں۔

مزید برآں ماہ جبین بلوچ کے اہل خانہ کی جانب سے ماہ جبین و انکے بھائی کی بازیابی کے لئے آج شام سوشل میڈیا پر کیمپین کا اعلان کیا گیا ہے، جبکہ اہل خانہ نے عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ انکے بچوں کی رہائی میں کردار ادا کریں۔