کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

85

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ آج جمعہ کے روز کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 5844 ویں روز جاری رہا، جبری لاپتہ عبدالغنی بلوچ اور ایمل بلوچ کے لواحقین نے احتجاجی کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

عبدالغنی بلوچ کے ہمشیرہ نے کہا کہ عبدالغنی ایک ایم فل اسکالر، نشنل ڈیموکریٹک پارٹی ( این ڈی پی ) کےرہنما اور ایک پرامن سیاسی ورکر ہے وہ رواں ماہ کی 25 تاریخ کو کوئٹہ سے کراچی کی طرف سفر کررہا تھا انہیں خضدار کے مقام پر فورسز نے مسافروں کے سامنے سے حراست میں لینے بعد جبری لاپتہ کردیا، خاندان کو انکی گرفتاری کی وجہ بھی نہیں بتایا جارہا ہے اور انہیں یہ بھی معلومات فراہم نہیں کیا جارہا ہے کہ وہ کس ملکی ادارے کے حراست میں ہے۔

عبدالغنی بلوچ کی ہمشیرہ نے تنظیم سے یہ بھی شکایت کی کہ وہ بھائی کی جبری گمشدگی کی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے خضدار گیا اور متعلقہ تھانہ سے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے رابطہ کیا لیکن ایس ایچ او نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا اسکے بعد ایس پی خضدار کو درخواست دی لیکن ایف آئی آر درج نہیں کیا جارہا ہے جسکی وجہ سے انکے خاندان شدید ذینی اذیت میں مبتلا ہے۔

22 اور 23 مئی کی درمیانی شب کوئٹہ کے ریڈ زون سے سی ٹی ڈی اور دیگر ملکی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے کمسن طالب علم ایمل کی کیس کو تنظیمی سطح پر لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائی گئی کمیش اور صوبائی حکومت کو فراہم کردیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ نے عبدالغنی بلوچ اور ایمل بلوچ کی ماورائے قانون گرفتاری کے بعد انکی جبری گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر عبدالغنی بلوچ اور ایمل پر الزام ہے انہیں منظر عام پر لایا جائے اور انہیں قوانین کے تحت اپنے صفائی پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جائے اور وہ بےقصور ہے تو انہیں رہا کرکے خاندان کو ذہنی اذیت سے نجات دلائی جائے۔