خاموش رات میں چیختی صدائیں — ماہ جبین بلوچ و یونس بلوچ کی جبری گمشدگی
تحریر: کاشف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
رات کی سیاہی ابھی مکمل طور پر زمین پر نہیں چھائی تھی کہ کوئٹہ کے سیول اسپتال کے نرسنگ ہاسٹل کی خاموش فضا اچانک بوٹوں کی آوازوں سے لرز اُٹھی۔ دروازے توڑے گئے، کمرے کھنگالے گئے، اور آخرکار ایک نوجوان طالبہ، ماہ جبین بلوچ، کو اُن کے کمرے سے گھسیٹ کر لے جایا گیا۔ یہ سب کچھ اُس شہر میں ہوا جو علم و آگہی کا مرکز کہلاتا ہے — کوئٹہ۔ ماہ جبین بلوچستان یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور سیول اسپتال کے نرسنگ ہاسٹل میں مقیم تھیں۔ لیکن گزشتہ شب، اُنہیں سکیورٹی فورسز نے مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔
اسی رات، بلوچستان کے ضلع واشک کے علاقے بیسیمہ، کلی سیاہوزئی میں، ماہ جبین کے بھائی یونس بلوچ کو بھی رات تقریباً دو بجے کے قریب سکیورٹی اہلکاروں نے چھاپہ مار کر مبینہ طور پر اغوا کر لیا۔ دو الگ الگ جگہیں، ایک ہی رات، ایک ہی خاندان، اور ایک ہی کہانی — ریاستی جبر، خاموش چیخیں، اور گم ہوتے خواب۔
ماہ جبین اور یونس کا تعلق اُس سرزمین سے ہے جہاں علم کی پیاس کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، اور جہاں سوال کرنے والا ہر نوجوان خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ کلی سیاہوزئی، بیسیمہ — ایک ایسا گوشہ جہاں ہر گھر کی دیوار پر گمشدہ چہروں کی تصویریں لگی ہیں، جہاں مائیں دعاؤں میں اپنی اولاد کی سلامتی مانگتی ہیں، اور ہر دستک دل دہلا دیتی ہے۔
ماہ جبین بلوچ کا قصور کیا تھا؟ کہ وہ ایک طالبہ تھی؟ کہ وہ بلوچ تھی؟ کہ وہ خواب دیکھتی تھی؟ یا کہ اُس نے زندگی کو جبر سے انکار کرنا سیکھا تھا؟ اُن کی گمشدگی صرف ایک فرد یا ایک خاندان کا سانحہ نہیں — یہ پورے بلوچستان کی روح پر لگا ہوا تازہ زخم ہے۔
ماہ جبین کا خاندان پہلے بھی ریاستی جبر کا شکار رہا ہے۔ لیکن اب کی بار درد دُگنا ہے — ایک بیٹی، ایک بھائی، دونوں لاپتہ۔ دو زندگیاں، دو چراغ، اور ایک ہی اندھیری راہ۔
سوال وہی ہے: کب تک؟ کب تک علم کے دروازے بند کیے جاتے رہیں گے؟ کب تک نوجوانوں کی آنکھوں میں خواب دیکھنے کی اجازت چھینی جائے گی؟ کب تک مائیں اپنی اولادوں کے لیے انصاف مانگتی رہیں گی اور جواب میں صرف خاموشی ملے گی؟
ہم ماہ جبین بلوچ اور یونس بلوچ کی فوری اور غیرمشروط بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک آواز نہیں، یہ ہزاروں ماؤں، بہنوں، بھائیوں، اور بیٹیوں کی مشترکہ پکار ہے۔ کیونکہ خاموشی اب جرم ہے — اور مزاحمت زندگی-
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔