بلوچ رہنما مہران مری نے کہا ہے کہ پاکستان نے 1948 سے بلوچستان پر غیرقانونی قبضہ جما رکھا ہے، اور اس خطے کو ایک بھاری عسکری علاقے میں تبدیل کر کے مقامی آبادی کے بنیادی حقوق کو منظم انداز میں پامال کیا جا رہا ہے۔
اے این آئی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں مہران مری نے بلوچستان کا موازنہ دیگر عالمی تنازعات سے کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے بلوچستان کو بھی مغرب کی اتنی ہی توجہ ملنی چاہیے، جتنی یوکرین اور فلسطین جیسے علاقوں کو دی جا رہی ہے، مگر بدقسمتی سے بلوچستان کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آزادی کے صرف نو ماہ بعد، 28 مارچ 1948 کو، پاکستان کے ساتھ جبری الحاق سے پہلے بلوچستان ایک خودمختار ریاست تھا۔ ان کے مطابق عالمی برادری جغرافیائی سیاسی مفادات کی بنا پر بلوچستان کے مسئلے کو مسلسل نظرانداز کرتی رہی ہے۔
مہران مری نے کہاکہ پاکستان ایک جمہوری ملک نہیں بلکہ ایک فوجی ادارہ ہے، جہاں ریئل اسٹیٹ سے لے کر خوراک کی صنعتوں تک ہر شعبے پر فوجی جرنیلوں کا کنٹرول ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں “اسٹیبلشمنٹ” ایک ایسا گٹھ جوڑ ہے جس میں فوج، پارلیمنٹ اور عدلیہ شامل ہیں، اور یہ سب مل کر اختلاف رائے کو دبانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان ایک عام ملک نہیں بلکہ ایک کھلے جیل خانے کی مانند ہے، جہاں شہری آزادیوں کا عملاً کوئی وجود نہیں۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور میڈیا پر سخت سنسرشپ کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تمام اقدامات دانستہ طور پر خوف پھیلانے اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ پالیسی سابق صدر پرویز مشرف کے دور سے جاری ہے اور آج بھی فوج کی حکمت عملی کا مرکزی جزو ہے۔
معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے مہران مری نے کہا کہ بلوچستان میں غربت ایک “زخم پر نمک چھڑکنے” کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے بے پناہ قدرتی وسائل کو بےدریغ لوٹا جا رہا ہے، جب کہ مقامی آبادی بدستور غربت کا شکار ہے۔ ان کے بقول، گوادر میں لوگ بھوکے سوتے ہیں جب کہ انہی کے آس پاس پرتعیش ہوٹل کھولے جا رہے ہیں۔
چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے اسے بلوچستان کے وسائل نکالنے کا ایک اور ذریعہ قرار دیا، اور امید ظاہر کی کہ چین اس منصوبے میں اپنی شمولیت پر نظرِ ثانی کرے گا۔
پاکستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف بھارت کے حالیہ “آپریشن سندھور” کی حمایت کرتے ہوئے مہران مری نے اسے ایک یادگار اور طویل المدت اقدام قرار دیا۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ اسے ایک طویل المدتی مہم کے طور پر جاری رکھے، جیسا کہ امریکا نے 9/11 کے بعد کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب آپریشن سندھور اپنے مقاصد حاصل کر لے گا، تو امید ہے کہ بلوچستان کی آزادی بھی اس کے نتائج کا حصہ ہوگی۔