ٹشو پیپرز بلوچستان اسمبلی کے – سہیل احمد

69

ٹشو پیپرز بلوچستان اسمبلی کے

تحریر : سہیل احمد

دی بلوچستان پوسٹ

آج سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر ہاتھ میں ایک کیمرہ اور ہر شخص ایک صحافی کی حیثیت رکھتا ہے جہاں ٹی وی چینلز کی رسائی نہیں ہوتی یا خود چینلز خبریں نہیں دینا چاہتے وہاں کسی بھی شخص کے ہاتھ میں ایک موبائل کیمرہ ہے جس سے وہ بروقت ریکارڈنگ کر کے اسے واہرل کر سکتا ہے لوگوں کی توجہ حاصل کر سکتا ہے اپنے کسی ایشو کو ہائی لائٹ کروا سکتا ہے اس کے جہاں مثبت پہلو ہیں وہیں ہر بندے کی صحافی بننے کی منفی پہلو بھی ہیں کیونکہ نان پروفیشنل صحافی پھر صحافتی آداب و اخلاقیات کے بر خلاف موقع پر جج بن جاتا ہے اور وہیں پر عدالت لگا کر کسی کی پراہیویسی میں دخل دے کر اس کے کردار کی دھجیاں اڑا سکتا ہے اسے مجرم ثابت کرنے کی کوشش کرنے میں آخری حد تک جاکر واقعے سے متعلق حقائق کو مسخ کرسکتا ہے. جب تک الیٹکرونک میڈیا نے اتنی ترقی نہیں کی تھی پرائیویٹ چینلز نہیں تھے تب پرنٹ میڈیا اس میدان کا بادشاہ ہوتا تھا کسی بھی بڑے اخبار کے علاقائی نماہندے بڑے حیثیت والے لوگ ہوتے اخبار سے چونکہ انھیں اجرت نہ ملتی اس کے باوجود اچھی خاصی زندگی گزارتے اور علاقائی سطع پر لوکل بیوروکریسی میں ان کے لیے ایک کرسی مختص ہوتی. اخبار کی طرف سے بھی انھیں کھلی چھوٹ ہوتی تھی کہ اپنے علاقے میں جتنا کما سکتے ہو ہماری طرف سے کچھ نہیں، تب وہ نماہندہ اور لوکل صحافی کسی پولیس افسر کی ایمانداری کی خبر لگا کر کماتا یا کسی ایکسئین کی کرپشن کے کچھ پیپرز اس کے سامنے رکھ رقم اینٹھ لیتا. لفافہ صحافی لفظ ایسے ہی حضرات کے لیے رائج ہو گیا. جو شہری صحافی یا پروفیشنل ہوتے ان کے پھر علاقائی صحافیوں سے کچھ الگ لیول کے ذریعے ہوتے ایک تو گاڑی پر لگی پریس کی نمبر پلیٹ ان کو سماج سے الگ ایک دیگر مقام عطا کرتا وزیروں کی طرف سے نوازشیں الگ سے ہوتیں وہ جو حقیقی صحافی ہوتے انتہائی قلیل تعداد میں وہ اپنی ساکھ بنا کر رکھتے ان کے چھوٹے روز مرہ کے کاموں میں رکاوٹ نہیں ہوتی تھی بعض اوقات وہ پھر موقع میسر ہونے پر کسی بڑی جگہ ہاتھ مارتے ہوئے اپنا توبہ توڑ لیتے اور اپنے اگلے پچھلے سارے حساب برابر کر لیتے. بہر حال جب سے سوشل میڈیا نے طاقت اپنے ہاتھ میں لی ہے تو کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں رہی. ویسے بھی موجودہ دور میں ٹیکنالوجی کے بغیر رہنا شاید ناممکن ہے اور اس میں سوشل میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا. سوشل میڈیا معلومات کا ذریعہ ہونے کے ساتھ کسی کو چاہے وہ کہیں پہ بھی ہو اس کے اپنے سماج سے جوڑے رکھتا ہے.

ابھی کل سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے ٹشو پیپرز کراچی کے ایک ہوٹل پر استعمال ہو رہے تھے. کسی نے ویڈیو بنا دی اور سوشل میڈیا پر ڈال دی. جس کسی نے بلوچستان اسمبلی کے ٹشو پیپرز بمعہ دیگر سامان ہاتھ لگنے پر بیچ دی اس نے کسی دور دراز علاقے میں بیچنے کے لیے کہا ہوگا کراچی تو بلوچستان والوں کے لیے اتنی دور دراز علاقہ کبھی نہیں رہا.

ٹشو پیپرز کی کیا قیمت ہوگی یا کیا اہمیت؟ جو ممبران اسمبلی سلیکٹ کر کے اسمبلی میں بٹھا دیئے جاتے ہیں اب ان کی حیثیت بھی ٹشو پیپر جیسے ہے ایسا ہلکا پن کہ توبہ، بحیثیت انسان بھی اخلاقی طور انتہائی نچلی سطع پر ہوتے ہیں. جانتے ہیں کہ جنھوں نے سلیکٹ کر کے بھیجا ہے وہ وہی کام لیں گے جو ٹشو پیپر سے لیا جاتا ہے. ووٹوں سے تو منتخب ہو کر نہیں آئے ہیں کہ انھیں جواب دہ ہوں. جنہوں نے منتخب کیا ہے وہ نالے کے اُس پار ہیں وہ گندے نالے کے فضلات سے ہاتھ گند سے بچانے کیلئے ٹشو پیپر کیطرح ہی استعمال کریں گے تو پھر اس میں کیا معیار اور کیسی شرم.

جس طرح ہوٹل میں استعمال ہونے والے ٹشو پیپرز بلوچستان اسمبلی کے logo کیوجہ سے پہچان میں آئے اسی طرح یہ ممبران بھی اس لوگو یعنی ممبران صوبائی اسمبلی کی شناخت کو اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں کس پارٹی کے ہیں کیا سوچ رکھتے ہیں؟ کیا نظریہ ہے؟ ایجنڈا کیا ہے؟ منشور کے نقاط کیا ہیں؟ یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے. پچھلے الیکشن میں بلوچستان اسمبلی کے ممبران کی اکثریت باپ پارٹی سے تعلق رکھنے والے تھے وہی ممبران اس دفعہ پی پی پی کے جھنڈے تلے اسمبلی میں براجمان ہیں. ٹشو پیپر ہی ہوئے. اسمبلی ممبر کی نمبر پلیٹ گاڑی پر لگوانے کے لیے بار بار ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہونے والے غلیظ لوگ، جو اپنے زمین پر باہر سے آنے والوں کی گند کو صاف کرنے اپنا آپ ٹشو پیپر کیطرح پیش کیے دیتے ہیں. ایک الیکشن میں اگر باپ پارٹی کا ٹشو پیکٹ چلتا ہے تو دوسرے میں پی پی کا تیسرے میں ن ق ج کا ڈبہ چلتا ہے ٹشو وہی ہوں گے صرف logo بدل دیئے جاتے ہیں. مرضی کمپنی کی چلتی ہے کمپنی وہ جو کوئٹہ میں نالے کے اُس طرف رہتے ہیں کوئٹہ کے اچھے لوگوں کو لخ لعنت کہہ کر تھوکتے ہوئے آسانی رہتی ہے کہ وہ اسی طرف رخ کر کے تھوکتے ہیں.

کہتے ہیں کہ جن جن نشستوں پر بار بار ری الیکشن کروایا جا رہا ہے اس کے باوجود انھیں فائنل رزلٹ نہیں دی جاتی اصل میں یہ اپنے پالتو ممبروں سے کمائے گئے پیسے دوبارہ اینٹھنے کا کمپنی کا فارمولا ہے ایک طرف جرنل کرنل اپنے ممبرز کو آسرے پر رکھتے ہیں کہ کوئی بھی آپ کا نشست چھیننے کی جرآت نہیں کر سکتا کسی میں اتنی ہمت نہیں تم سے زیادہ ووٹ لے سکے لیکن جو مد مقابل ہے وہ بھی تو انھی گملوں میں پلا بڑھا ہے جتک کے ہاتھ میں رزلٹ دیکر پرکانی کی عدالت تک دوڑ لگا دی جاتی ہے وہ وہاں سے ایک کاغز ری الیکشن کا لیکر آ جاتا ہے اس دوران نالے والے کچھ اور رقم نکال لیتے ہیں. ڈھول بجانے اور ناچنے والے ایک ہی نچانے والے کی ڈگڈگی پر ناچ رہے ہیں.

ٹشو پیپرز کی اسمبلی ایک تماشہ گاہ ہے وہ بھی ایک دوسرے کو پواہنٹ آف آرڈر پر بات کرتے دیکھتے ہوئے کھسیانی ہنسی ہنستے ہیں. اردو کی ماں بہن ایک کر دیتے ہیں. ابھی کچھ روز پہلے حب سے اسمبلی ممبر کی حیثیت سے حلف اٹھانے والے علی حسن زہری نے اردو تو چھوڑ اپنے ملک کی بھی ماں بہن ایک کر دی. بیچارہ حلف نامہ پڑھنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے اپنی سماعت پر زور دے رہے تھے اسپیکر کے الفاظ کو دہرانے کے لیے اپنے کان کھڑے کر کے بغور سننے کے باوجود الفاظ کی ادائیگی اپنی مرضی سے کرتے رہے. اب ایسے ڈبل پلائی ٹشو پیپرز اسمبلی میں ہوں گے تو فقط کاغزی ٹشو پیپرز ہی نہیں کراکری فرنیچرز اور دیگر بہت سارے سامان سوائے اسمبلی عمارت کے سب ہوٹلوں پر بکیں گے. سہراب گوٹھ کراچی کے سمندر خان ہوٹل والے کو اپنے رابطے بحال رکھنے چائیے بھکاری اٹھائی گیرے ٹشو پیپر بیچنے ضرور آئیں گے گند صاف کرنے خود جو مستعمل ہیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔