جنگ زدہ محبت
تحریر: جمال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان واپسی کے بارے میں سوچتے ہوئے، دل کے اندر ایک ایسی کسک محسوس ہوتی ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔ جب فلسطینی مہاجرین کو اپنے وطن لوٹتے دیکھا، تو محسوس ہوا کہ اُن کے دیس میں ہر وہ چیز جو کبھی تھی، ختم ہو چکی ہے؛ ان کے گھر تباہ ہو چکے ہیں، ان کے زمین کے مناظر بدل چکے ہیں۔ دل میں ایک سوال اٹھا: وہ وہاں کیا کریں گے؟
پھر میں نے خود کو اُس منظر میں رکھا، یہ تصور کرتے ہوئے کہ میں بلوچستان واپس جا رہا ہوں، ایک ایسی سرزمین جہاں قدرتی خوبصورتی تو اب بھی موجود ہے، لیکن وہ جنگ اور قبضے کی دستبرد سے تباہ ہو چکی ہے۔
بلوچستان ہمیشہ ایک جیسا ہی رہا، لیکن پھر بھی اُس کی یاد میں دل تڑپتا ہے۔ یہ تڑپ کسی عمارت یا ڈھانچے کے لیے نہیں، بلکہ اُس زمین کی روح کے لیے ہے۔ دشمن کے ہاتھوں تباہ ہونے کے باوجود، وطن تو وطن ہوتا ہے؛ اُس سے محبت ناقابلِ تبدیل ہے۔ جیسا کہ بلوچی میں کہا جاتا ہے، “تمہارا وطن تمہارا وطن ہے، چاہے وہ خشک لکڑی ہی کیوں نہ ہو۔”
جب میں بلوچستان کے بارے میں سوچتا ہوں، تو میرا دل اُس وقت کے لیے تڑپتا ہے جب بارش کی خوشبو اُس کی پیاسی زمین پر بکھرتی تھی، ایک ایسی خوشبو جو روح کو تازگی بخشتی ہے۔ وہ پتھر، جو مسلسل دھوپ سے گرم ہوتے ہیں، ہماری تاریخ کے گواہ ہیں، ہر پتھر ہماری مزاحمت کی خاموش داستان سناتا ہے۔
مجھے اُس وقت کی یاد آتی ہے جب ہم ندیوں سے سیدھا پانی پیا کرتے تھے، جو آزادی کی مٹھاس کے ساتھ ٹھنڈک فراہم کرتا تھا۔ بلوچستان کے درخت، اپنی پھیلی ہوئی شاخوں کے ساتھ، صرف سایہ ہی نہیں دیتے بلکہ ایک پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں، ایک ایسی جگہ جہاں دنیا کی سختیوں سے پناہ لی جا سکتی ہے۔
زمین کے ذرات کے ساتھ ایک گہرا تعلق محسوس ہوتا ہے، جہاں ہر ذرا اپنی بقا اور وطن سے محبت کی کہانی سناتا ہے۔ خشک ہوائیں ہمارے آباؤ اجداد کی سرگوشیاں لے کر آتی ہیں، اور جنگلات کے پتوں کی سرسراہٹ اُن بچوں کی ہنسی گونجاتی ہے جو کبھی وہاں کھیلتے تھے۔ وہ سخت، بے آب و گیاہ زمین جو اپنی زندگی کے لیے ضد کرتی ہے، ہماری ناقابلِ شکست روح کی علامت ہے۔
بلوچستان کے رات کے آسمان، جو شہر کی روشنیوں سے پاک ہیں، ستارے دکھاتے ہیں جو اتنے قریب محسوس ہوتے ہیں جیسے انہیں چھوا جا سکتا ہو۔ ہر ایک برج ہماری ثقافتی وراثت کا نقشہ دکھاتا ہے۔ یہاں کی صبح ایک وعدہ لے کر آتی ہے، آسمان پر وہ رنگ بکھیرتی ہے جو کوئی مصور نہیں بنا سکتا، ہر طلوعِ آفتاب ہماری زمین سے وفاداری کا خاموش عہد ہے۔
جلاوطنی میں، بلوچستان کی ہر یاد ایک خزانہ بن جاتی ہے، ہر یاد ہماری شناخت کے ٹکڑوں کو جوڑنے والی ایک کڑی ہے۔ یہ خواہش کہ ہم دیکھیں، چھوئیں، محسوس کریں اور اس زمین کو گلے لگائیں، ایک ناقابلِ برداشت طاقت ہے، جو ہمیں لوٹنے، دوبارہ تعمیر کرنے اور اپنے حق کو حاصل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
چاہے کتنا ہی بدل گیا ہو یا تباہ ہو چکا ہو، اپنے وطن کی محبت ہمیشہ قائم رہتی ہے، پہاڑوں کی طرح مضبوط، دریاؤں کی طرح گہری، اور آسمان کی طرح وسیع۔ یہ محض ایک نقشے پر موجود مقام پر واپسی نہیں، بلکہ اُس جگہ لوٹنے کی بات ہے جہاں ہمارے دل بستے ہیں، جہاں ہماری روحیں آزاد ہوتی ہیں، اور جہاں کی ہر چیز، چاہے وہ خشک لکڑی ہی کیوں نہ ہو، ہمارے لیے ماں کی گود جیسی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔