جنوبی کوریا: مارشل لا لگانے والے صدر یون سک یول گرفتار

32

جنوبی کوریا میں تحقیقاتی اداروں نے ناکام مارشل لا پر مواخذے کا سامنا کرنے والے صدر یون سک یول کو گرفتار کر لیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق بدھ کی صبح تحقیقاتی اداروں نے صدر یون کو کئی گھںٹوں کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا۔

جنوبی کوریا میں پہلی بار کسی عہدے پر موجود صدر کو بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔

یون سک یول کو گرفتار کرنے کے بعد تحقیقاتی ادارں کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ہیڈ کوارٹرز نے صدر یون کی گرفتاری کے لیے جاری ہونے والے وارنٹس پر بدھ کی صبح مقامی وقت کے مطابق ساڑھے دس بجے عمل در آمد ممکن بنایا ہے۔

یون سک یول نے گرفتاری سے قبل ایک بیان میں کہا کہ وہ کسی بھی قسم کی خون ریزی سے بچنے کے لیے تحقیقات میں اداروں کی معاونت کریں گے۔

جنوبی کوریا میں مارشل لا لگانے پر صدر یون کا مواخذہ کیا گیا تھا جس کے بعد انہیں بغاوت کی تحقیقات کے لیے متعدد بار گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم اداروں کو اس میں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔

رپورٹس کے مطابق بدھ کی صبح سیکڑوں اہلکاروں نے ان کی سرکاری رہائش گاہ کو گھیرے میں لیا۔ پولیس اور کرپشن انویسٹی گیشن آفس کے اہلکار لگ بھگ پانچ گھنٹوں تک صدارتی رہائش گاہ کا محاصرے کیے رہے۔

اطلاعات کے مطابق صدر کی رہائش گاہ میں داخل ہونے والے اہلکاروں کی اندر موجود افراد سے مڈبھیڑ بھی ہوئی۔ تاہم یہ شدید نوعیت کی جھڑپیں یا تصادم نہیں تھا۔

جس وقت صدر یون کو حراست میں لیا جا رہا تھا وہاں موجود ان کے حامی ان کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔

صدر یون صدارتی قیام گاہ سے ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہوئے اور کرپشن انویسٹی گیشن آفس کے دفتر پہنچے۔ ان کی گرفتاری کے فوری بعد حکام نے ان کے خلاف بغاوت کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

یون سک یول 2019 سے 2021 تک جنوبی کوریا کے سابق پراسیکیوٹر جنرل رہ چکے ہیں۔ ان کی قیادت میں ملک کی قدامت پسند جماعت پیپل پاور پارٹی (پی پی پی) کو 2022 کے انتخابات میں کامیابی ملی تھی۔ وہ مئی 2022 میں ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔

مقامی قانونی ماہرین اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر صدر کے خلاف بغاوت کے الزامات درست ثابت ہوئے تو انہیں سزائے موت یا عمر قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تحقیقاتی اداروں نے بغاوت کی تحقیقات کے لیے تین جنوری کو صدر کو حراست میں لینے کی کوشش کی تھی۔ تاہم صدارتی گارڈز اور سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے مزاحمت پر صدر یون کی گرفتاری ممکن نہیں ہو سکی تھی۔

جنوبی کوریا میں اس سیاسی افراتفری کا آغاز ایک ماہ قبل تین دسمبر 2024 کو اُس وقت شروع ہوا تھا جب صدر یون نے ملک میں مارشل لا لگانے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم چند گھنٹوں بعد ہی پارلیمنٹ نے اسے مسترد کر دیا تھا اور پھر صدر یون نے چند گھنٹوں بعد ہی مارشل لا اٹھانے کا اعلان کر دیا تھا۔

بعد ازاں صدر کے خلاف مواخذے کی کارروائی کا آغاز ہوا اور ان کے صدارتی اختیارات کو معطل کر دیا گیا تھا جو اب بھی معطل ہیں۔

صدر یون کے عہدے پر رہنے یا نہ رہنے سے متعلق حتمی فیصلہ آئینی عدالت نے کرنا ہے۔

یون سک یول کو بغاوت اور مارشل لا کے اعلان سے متعلق اختیارات کے غلط استعمال پر تحقیقات کا سامنا ہے۔

صدر کو تحقیقات کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے تین مرتبہ سمن جاری کیا گیا تھا۔ لیکن ان کی عدم پیشی کے بعد عدالت نے ان کے حراستی وارنٹ جاری کیے تھے۔

جنوبی کوریا میں قواعد کے مطابق صدر کو عہدے پر رہتے ہوئے قانونی چارہ جوئی سے استثنا حاصل ہے۔ البتہ ملک سے غداری یا بغاوت کی صورت میں صدر کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنے کا قاعدہ موجود ہے۔

صدر کے ناکام مارشل لا پر اپوزیشن ان کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ البتہ انہوں نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ مارشل لا کی ناکامی کے بعد وزیرِ دفاع مستعفی ہو گئے تھے۔ ان کی تجویز پر ہی صدر نے مارشل لا لگایا تھا۔

سابق وزیرِ دفاع کم یونگ ہیئن کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ وہ پہلے شخص تھے جنہیں مارشل لا کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔

کم یونگ ہیئن نے دورانِ حراست خودکشی کی بھی کوشش کی تھی۔ تاہم حکام نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔