بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیش سکیڑیری قاضی ریحان نے اونلائن پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے بعد سے لے کر تسلسل کے ساتھ بلوچ قوم کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ نسل کشی جسے عموما قتل عام سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اس غیر انسانی و غاصبانہ منصوبے کا صرف ایک حصہ ہے۔ جبکہ حقیقی معنوں میں نسل کشی کسی قوم کو اس کی زمین، زبان ، تہذیب و ثقافت سے محروم کرکے قابض کے دیئے گئے جعلی شناخت میں ڈھالنا ہے۔
انہوں نے کہاکہ 27 مارچ 1948 سے بلوچستان پر پاکستانی جبر جاری ہے ، جو محکومی کے خلاف بلوچ قومی مزاحمت کے خاتمے کے لیے ہے۔آج ہم آپ سے مخاطب ہیں 2024 کے سال کا سورج غروب ہوچکا ہے اور نئے سال 2025 کا یہ پہلا دن ہے۔ نیا سال دنیا کی آزاد اقوام کے لیے ترقی کا ایک نیا زینہ ہوتا ہے۔ نئے خواب دیکھے جاتے ہیں، مشکلات و مسائل سے سیکھ کر زیادہ بہتر منصوبوں کے ساتھ ایک نئے مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ آزاد انسان اپنے انفرادی مقاصد کا اظہار کرتے ہوئے نئے جذبات و عزم کے ساتھ ان کو حاصل کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔
مگر بلوچ قوم کے مستقبل کو جبر کی بھول بھلیوں میں گم کردیا گیا ہے۔ آج ہم یہاں نئے سال کی خوشیاں منانے نہیں آئے بلکہ اس غم کا اظہار کرنے کے لیے آئے ہیں کہ ہمارے وطن کو ہمارے لیے مقتل بنا دیا گیا ہے۔ ہماری لاشیں ویرانوں میں پھینکی جا رہی ہیں۔ ہمارے لوگوں کو روزانہ پاکستانی فوج غیر قانونی حراست میں لے کر غائب کر دیتی ہے۔ حراستی قتل کے بعد لاشیں پھینک کر ، لواحقین کو مزید تشدد کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور جب اس جبر کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے تو اس احتجاج کو طاقت کے زور پر دبایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پورے سال بلوچستان میں سینکڑوں واقعات ایسے رونما ہوئے کہ ہر ایک واقعہ انسانیت کو شرمانے کے لیے کافی ہے۔لیکن ہم دسمبر 2024 کے کچھ واقعات کو لے کر بلوچستان میں جاری ظلم کی اس داستان کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے انسانی حقوق کے ادارے ’ پانک‘ کی مکمل سالانہ رپورٹ ہم آپ کو آنے والے دنوں میں پیش کریں گے۔ آج صرف دسمبر کے مہینے کی اعداد و شمار اور چیدہ واقعات بیان کرتے ہیں۔
ہمیں سننے والوں ، سوشل میڈیا پر سرگرم ، لکھنے ، بولنے والوں ، اس امید کے ساتھ آپ سے مخاطب ہیں کہ آپ ظلم کے خلاف اپنی آواز کو مظلوم کے حق میں اٹھائیں گے۔
ظریف ولد ھومر کا واقعہ جو کے ایک حد تک میڈیا پر بھی آچکا ہے۔ کیچ کے مرکزی شہر تربت سمیت مختلف علاقوں میں اس حراستی قتل کے خلاف احتجاج بھی ہو رہے ہیں۔بی این ایم کا ادارہ انسانی حقوق ’ پانک ‘ بلوچستان میں ہر واقعے پر دن بھر رپورٹنگ کرتا ہے۔اس حراستی قتل پر بھی ہمارے ادارے نے آپ کو بروقت آگاہ کیا۔یہ اپنی نوعیت کا واحد حراستی قتل نہیں ، بلوچستان میں پاکستانی فوج ، اس کے ذیلی ادارے ، اس کی ماتحت پولیس جب بھی چاہیں ، آسانی سے لوگوں کو قتل کردیتے ہیں۔ یہ سب آسانی کے ساتھ اس لیے ہو پاتا ہے کہ کوئی ان کا احتساب نہیں کرتا۔
انہوں نے کہاکہ ظریف کا حراستی قتل ، زبان کاٹ دی گئی ، تشدد کیا گیا ، اجتماعی سزا کا عمل تھا ‘
دازن ، تمپ ضلع کیچ کے رہائشی ظریف ولد ھومر ، ایک نہتے شہری تھے۔ ان کے گھرانے کو پاکستانی فورسز نے ماضی میں بھی نشانہ بنایا تھا۔ تقریبا چھ سال قبل ظریف کے ایک بیٹے کو پاکستانی فوج نے جبری گمشدہ کیا۔ جبری گمشدگی کے دوران تشدد کا نشانہ بنا کر رہا کردیا۔لیکن تسلسل کے ساتھ ظریف ولد ھومر اور ان کے خاندان کو ہراساں کیا جاتا رہا۔رات کو بار بار چھاپے مار کر اہل خانہ پر ذہنی و جسمانی تشدد کیا جاتا رہا۔ تلاشی کے دوران گھر سے پاکستانی فوج نے چوریاں بھی کیں۔ظریف کو مسلسل دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ ایک دفعہ گرفتار کرکے دازن سے تمپ لے جایا گیا وہاں بھی ان کے رشتہ داروں کو تشدد اور ہراساں کیا گیا ، اور نوجوانوں کو حراست میں لے کر جبری گمشدگی کی حالت میں تشدد کیا گیا۔
اس دوران ان کے ایک چھوٹے بیٹے کو ، جو طالب علم ہیں وقفے وقفے سے ایف سی کیمپ طلب کرکے ہراساں کیا گیا۔ہر دفعہ بلانے پر ظریف اپنے بچے اور بھائی کے ساتھ ایف سی کیمپ گئے تاکہ اپنے اوپر جھوٹے الزامات کا دفاع کرسکے۔ مگر پرامن شہری کے طور پر رہنے کی ان کی تمام تر کوششیں ناکام ہوئیں۔تشدد اور بار بار کے چھاپوں سے تنگ آکر ان کا ایک بیٹا قانونی راستے سے بیرون ملک چلا گیا اور وہاں مزدوری کر رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ چھ سال مسلسل گھر پر چھاپے ، اہل خانہ ، گھر کے بزرگ و خواتین سے ناشائستہ رویہ ، ذہنی اور جسمانی تشدد۔ خاندان کو طاقت کے زور پر منتشر کرنا۔ جبری ہجرت پر مجبور کرنا یہ سب اس طویل عرصے میں ظریف کے ساتھ ہوتا رہا۔شہید ظریف ، بیکری چلاتے تھے ، ریاستی دباؤ کے نتیجے میں انھوں نے اپنی بیکری اونے پونے داموں فروخت کرکے کاروبار بند کردیا۔ یہ وہ ستم ہے جو بلوچستان میں ہر خاندان نے بھگتا ہے ، کوئی ایک خاندان ایسا نہیں جو اس ظلم سے محفوظ رہا ہو۔
ظریف کے ساتھ تسلسل کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس سلوک کا اختتام بالآخر ان کے حراستی قتل سے ہوا۔ اہل خانہ کے مطابق ، جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب (27 دسمبر کو ) رات کے نو اور دس بجے کے درمیان گھر پر ایف سی اہلکاروں نے چھاپہ مارا۔ بغیر وارنٹ کے گھر میں داخل ہوئے گھر کی خواتین پر تشدد کرکے انھیں گھروں میں بند کردیا۔اس موقع پر ظریف اپنے گھر سے ملحقہ باغ میں پانی کا موٹر بند کرنے گئے تھے۔اس کی موبائل کی روشنی دیکھ کر فورسز وہاں پر گئیں ، یہ سارا منظر گھر کی خواتین اور بچے کھڑکیوں سے دیکھتے رہے۔ظریف کو گرفتار کرکے لے جایا گیا ، ساتھ دوسرے رشتہ داروں کے گھر ہیں انھوں نے پاکستانی فورس ، پاکستانی فوج کے ماتحت ادارے ’ فرنٹیئر کور ‘ ( ایف سی ) کو ظریف ولد ھومر کو گرفتار کرتے ہوئے دیکھا۔
انہوں نے کہاکہ دن کی روشنی میں پاکستانی فوج نے دوبارہ مذکورہ گاؤں کو محاصرے میں لیا ، گھر گھر جاکر لوگوں کو باہر نکلنے سے منع کیا گیا۔ رفیق ولد موسی اور میار ولد پیربخش نامی افراد کے گھروں میں گھس کر وائی فائی کنکیشنز اور فون لائنز کاٹ دیئے اور انھیں بھی ہراساں کیا گیا۔
27 دسمبر ، 2024 کو جمعہ کے دن ، ان کی مردہ جسم ایک ہمسایہ کی دیوار کے ساتھ برامد ہوئی۔ظریف کو حراست میں تشدد کرکے قتل کیا گیا تھا۔ زبان کاٹی گئی تھی ، جسم پر سوئیاں چبونے کے نشان تھے اور تشدد کی وجہ سے جسم کی کھال مختلف جگہوں سے ادھڑی ہوئی تھی۔لواحقین نے ایف سی کو ملزم قرار دے کر ایف آئی آر درج کروانا چاہا ، پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا۔لواحقین لاش پوسٹ مارٹم کے لیے تربت لے جانا چاہتے تھے ایف سی نے راستے بند کردیئے اور طاقت کے ذریعے انھیں ظریف کی لاش بغیر پوسٹ مارٹم کیے دفنانے پر مجبور کیا گیا۔آج تربت ، کیچ سمیت بلوچستان کے مختف شہروں میں ان مظالم کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ظریف قتل کا واقعہ ، بلوچستان کی پوری صورتحال کو سمجھنے میں ایک اہم واقعہ ہے۔اس لیے اسے تفصیل سے بیان کرنا ضروری تھا۔
اب میں ، بلوچستان میں صرف گذشتہ مہینے یعنی دسمبر 2024 کے چنیدہ واقعات بیان کرکے ، اپنی پریس کانفرنس کو اختتام کرؤں گا۔
اس مہینے 22 افراد کو جبری گمشدہ کیا گیا ، جبری گمشدگی ایک اصطلاح ہے ، جس کے معنی ہمارے لیے پاکستانی فوج کے خفیہ جیلوں میں قید افراد ہیں۔ یعنی اس مہینے بلوچستان بھر سے پاکستانی فوج نے 22 افراد کو گرفتاری کے بعد خفیہ قید خانوں میں رکھا ہے۔ ان کی موت و زیست اور صحت کے بارے میں لواحقین کو کوئی معلومات نہیں دی جاتی۔ یہ قید خانے بلوچستان میں بلیک ہولز ہیں جو ہر مہینے درجنوں زندہ انسانوں کو نگل لیتے ہیں جن میں سے ایک کثیر تعداد کا پھر کبھی پتا نہیں چلتا۔ کچھ زندہ لاشوں کی صورت رہا کیے جاتے ہیں ، کچھ کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ سال کے آخری مہینے میں ظریف ولد ھومر سمیت پانچ بلوچوں کی لاشیں گرائی گئیں۔تین بلوچ سرمچار پہاڑوں میں پاکستانی ڈرون حملوں میں قتل کیے گئے۔ان مزاحمت کاروں کا بلوچ قوم ماتم نہیں مناتی ہے ، لیکن یہ خون اںصاف ، برابری اور آزادی کے لیے بہایا جا رہا ہے۔ اس لیے ہم اس بات کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ جنھیں پاکستانی فوج دہشت گرد قرار دے کر قتل کرتی ہے وہ اپنی سرزمین، اپنی قوم اور قومی وقار کے دفاع کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اگر پاکستانی فوج کا قبضہ نہ ہو تو یہ کشت و خون بھی نہیں ہوگا۔ یہ قیمتی جانیں اسی قبضے کی وجہ سے قربان ہو رہی ہیں۔ اس لیے ’ پانک ‘ کی رپورٹ میں ، ہم یہ باقاعدگی سے درج کرتے ہیں کہ یہ بھی مظالم کے تسلسل کا نتیجہ ہے۔6 دسمبر ، 2024 کو گلی بلیدہ کے رہائشی ’ نوید ولد حمید‘ کو قتل کیا گیا۔14 دسمبر کو پاکستانی فوج کے ڈرون حملے میں شہید ہونے والے سرمچاروں میں عبدالمجید ولد ابراہم ، سکنہ خدابادان ، پنجگور ، ذاکر ولد عبدالرزاق سکنہ پسنی ، گوادر ، دلجان ولد نذیر سکنہ پنجگور شامل ہیں۔
پاکستانی فوج نے کئی گاؤں پر حملے کیے ، پانوان ، تحصیل جمیڑی ، ضلع گوادر میں حملہ کرکے آٹھ کے قریب کو افراد کو جبری لاپتہ کیا گیا۔24 گھنٹے سے زائد عرصے تک گاؤں کو محاصرے میں رکھا۔ کچھ زیرحراست لوگوں پر تشدد کرکے انھیں رہا کیا گیا اور کچھ اب بھی پاکستانی فوج کی حراست میں ہیں۔ اس لیے وہاں لوگ احتجاج کر رہے ہیں کہ انھیں رہا کیا جائے اور یہی بلوچستان کے بیک وقت مختلف علاقوں کی صورتحال ہے کہ لوگ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج پر بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ( وی بی ایم پی ) کے زیر اہتمام دنیا کا دوسرا طویل ترین احتجاج بھی بلوچستان کے مرکزی شہر شال میں پریس کلب کے سامنے ہو رہا ہے۔ جو گذشتہ 15 سال سے جاری ہے لیکن ان 15 سالوں میں جبری گمشدگی کا مسئلہ ختم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کر گیا ہے
انہوں نے کہاکہ گوکہ بلوچستان کے مہاجرین کے خلاف پاکستانی انٹلی جنس کی بیرون ملک کارروائیاں ان کے مجرمانہ عمل کا دیرینہ حصہ ہے۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت لائی جا رہی ہے۔ جس طرح حالیہ دنوں وزیرستان سے ہجرت کرنے والے لوگوں کو پختیکا افغانستان میں پاکستانی فوج نے نشانہ بنایا ۔ 40 سے زائد نہتے لوگوں کو ، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے بمبارمنٹ کرکے قتل کردیا۔اسی طرح سال کے شروع میں جنوری 2024 کو پاکستانی فوج نے مغربی بلوچستان کے سرحدی گاؤں شمسر پر میزائل حملے کر بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے مرکزی کونسلر دوستا محمود کو دس دیگر افراد کے ساتھ قتل کیا جن میں خواتین اور شیر خوار بچے بھی شامل تھے۔ ہم نے میڈیا کو اس جرم کے تمام ثبوت فراہم کیے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے پاکستان کے اس مجرمانہ عمل پر عالمی فورم میں اس کا کوئی محاسبہ نہیں کیا گیا ، جو ہونا چاہیے تھا۔
افغانستان میں پشتون مہاجرین کے قتل پر ہم پشتون قوم کو تعزیت پیش کرتے ہیں اور پاکستانی فوج کے افغان سرزمین پر حملے کو دراندازی قرار دیتے ہیں جو عالمی قوانین کی مکمل خلاف ورزی اور افغانستان پر حملہ ہے۔پاکستان اپنی عسکری طاقت کے بل بوتے پر اپنے ہمسایہ ممالک کو زیر کرنا چاہتا ہے۔افغانستان کے لیے پاکستان کو اسے اپنا پانچواں صوبہ بنانے کی سوچ اس کی فوجی قیادت کے ذہن میں آج بھی موجود ہے جس کا انھیں جب بھی موقع ملے عملی اظہار کرتے ہیں۔ افغانستان کے معاملات میں مسلسل مداخلت وہاں حکومت اور نظام کی تبدیلی میں براہ راست دخل اندازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان افغانستان اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کرکے جعلی سرحد ڈیورنڈ لائن پر تنازعے کو اپنے حق میں حل کروانا چاہتا ہے۔
مزید کہاکہ تاہم ، موجود افغان حکومت کا موقف قابل ستائش ہے کہ انھوں نے نہ صرف مہاجروں کے تحفظ کے اپنی پالیسی کا اعادہ کیا بلکہ دنیا پر واضح کیا کہ وہاں موجود مہاجرین مظلوم ہیں جو پاکستانی مظالم سے تنگ آکر وہاں ہجرت کر گئے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ افغانستان اپنے اس اصولی موقف کی بنیاد پر پاکستانی مظالم کے شکار مہاجرین کو ریاستی سطح پر ہر ممکن مدد فراہم کرئے گا اور ان کی حفاظت کا فریضہ انجام دے گا۔
پاکستان نے وہاں پر حملے میں جو دعوے کیے تھے عالمی اداروں نے بھی اس دعوے کو جھوٹا قرار دیا اور اس موقف کی تصدیق کی ہے کہ اس حملے میں نہتے لوگوں ، خواتین اور بچوں کو قتل کیا گیا تھا ، جو وہاں پناہ گزین تھے۔ اگر پاکستان کو بروقت نہیں روکا گیا تو پاکستان افغانستان کے داخلی مسائل سے ہر ممکن طور پر ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرئے گا۔مہاجرین کو بمبارمنٹ میں قتل کرکے خطے میں اپنا غنڈہ راج قائم کر نے کی کوشش کرئے گا۔ پاکستان نہیں چاہتا کہ اس کے ہمسایہ ممالک بالخصوص افغانستان مستحکم اور طاقتور ہو ، اور یہ خطے کے امن کے لیے ایک خطرناک صورتحال ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان شدت کے ساتھ جرائم پیشہ افراد ، کرایے کے قاتل اور منشیات فروشوں کی مدد سے بلوچ مہاجرین پر حملے کروا رہا ہے۔ گھروں میں ہینڈ گرنیڈ پھینکے جاتے ہیں اور لوگوں کو ہدف بناکر قتل کیا جاتا ہے۔ اس کی روک تھام ضروری ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے مظالم سے جان بچا کر ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ یہ بلوچ قوم کا حق ہے کہ انھیں ہمسایہ ممالک بطور مہاجر قبول کرتے ہوئے انھیں حق ہمسایگی کے طور پر مدد فراہم کریں اور عالمی طور پر مہاجرین کے جو حقوق وضع کیے گئے ہیں وہ بھی فراہم کیے جائیں ۔ آج بلوچ مہاجرین کی کثیرتعداد تعلیم ، صحت ، روزگار اور سفری سہولیات سے محروم ہے۔ شناختی دستاویز نہ ہونے کی وجہ سے وہ ضروری قانونی تحفظ سے بھی محروم ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچ مہاجرین کا مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر ہو اور انھیں ہر طرح سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی صورتحال بدترین ہے اور ریاست پاکستان کے اندر بلوچ قوم کے لیے انصاف کے تمام دروازے بند ہیں۔اس لیے ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے بالخصوص اور دیگر ممالک سے بالعموم انسانی بنیادوں پر مدد کی خواہاں ہے تاکہ ہم اپنی آزادی دوبارہ حاصل کرسکیں۔
ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ بلوچ قوم نے اپنی آزادی کے لیے جو قربانیاں دی رہی ہے اسے طاقت کے زور پر نہیں دبایا جاسکتا۔ بلوچستان پر قابض قوت کے سامنے بلوچ قوم ہر محاذ پر اپنی مزاحمت جاری رکھے گی۔ بی این ایم اپنے منشور کے مطابق بلوچ تحریک آزادی میں اپنا ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی رہے گی۔
آخر میں کہاکہ ہم نیا سال اس عزم سے شروع کرتے ہیں کہ جدوجہد آزادی کو جاری رکھیں گے۔بلوچ گلزمین ہماری جدوجہد کی محور ہے ، محور رہے گی ۔ بی این ایم کے گلزمین اور بیرون وطن موجود تمام کارکنان کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنا نظریاتی اور تنظیمی اثر و رسوخ مزید پھیلائیں اور بلوچستان کے کونے کونے میں آزادی کی جدوجہد سے وابستگی کا پیغام پہنچائیں۔