بولان کا عاشق: شے مرید
تحریر: سنگت میرک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
قومی آزادی کے فکر و نظریے سے لیس، بلوچ قوم کے ہزاروں باعلم و باشعور فرزندوں نے ہمیشہ اپنی بیش بہا زندگیاں محکومیت، نوآبادیاتی لوٹ مار، اور استعماریت سے نجات کے لیے قربان کی ہیں۔ وہ آج بھی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، جب تک کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوجاتے اور انسانیت کی تکمیل نہیں ہوتی۔
ایسے ہی عظیم سپاہیوں میں سے ایک نام فدائی سلال بلوچ عرف شے مرید کا ہے، جس کے بارے میں لکھنا میرے لیے نہایت مشکل ہے۔ میں جتنا بھی لکھوں، اس کی قربانی اور شان کو مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتا۔
فدائی سلال بلوچ 2 جنوری 2004 کو پنجگور کے علاقے پروم میں لال بی بی کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم پنجگور میں شروع ہوئی۔ جب وہ چھ سال کے ہوئے، تو ان کی ماں نے انھیں The Oasis اسکول میں داخل کروایا، جہاں وہ تین سال تک زیر تعلیم رہے۔ وہ صرف چھٹیوں میں اپنی ماں سے ملنے پروم جاتے تھے، اور کبھی کبھی ان کی ماں پنجگور آتی تھی۔
بعد ازاں، سلال نے چوتھی جماعت Cambridge اسکول میں ایک سال تک پڑھا، اور پھر 2016 میں ایف سی (FC) اسکول کھولا گیا۔ اس دوران، سلال کی ماں بھی پروم چھوڑ کر پنجگور آگئی تاکہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے قریب رہ سکے۔ سلال نے بہت ضد کی کہ وہ ایف سی اسکول میں داخلہ لے کیونکہ اس کے تمام دوست وہاں پڑھ رہے تھے۔ ابتدا میں ماں نے انکار کیا، مگر سلال کے اصرار پر اسے ایف سی اسکول میں داخل کروایا گیا۔
ڈیڑھ سال تک سلال نے ایف سی اسکول میں تعلیم حاصل کی، مگر اسی دوران دشمن نے اسے گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس تشدد میں فدائی سر بلند بھی شامل تھا۔ دشمن نے انھیں شدید زدوکوب کیا اور کہا کہ تم دونوں نے ہمارا کام خراب کیا ہے، حالانکہ انھیں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ جب سلال کی ماں کو یہ خبر ملی، تو اس نے فوراً اپنے بیٹے کو اسکول سے نکال لیا۔ 2017 میں، سلال نے دوبارہ Cambridge اسکول میں داخلہ لیا اور آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔
جب فدائی سلال صرف 13 سال کے تھے، تبھی انھیں غلامی کا گہرا احساس ہوا۔ انھوں نے اپنی آنکھوں سے ظلم و جبر دیکھا کہ دشمن کس طرح بلوچ قوم کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتا ہے۔ وہ 17 دن تک غائب رہے، جس سے ان کے گھر والے شدید پریشان ہوگئے۔ جب وہ لوٹے، تو ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پہاڑوں سے واپس آئے ہیں۔ انھوں نے اپنی ماں کو تسلی دی کہ وہ کہیں نہیں جائیں گے اور اپنی تعلیم جاری رکھیں گے۔
2019 میں، سلال نے دوبارہ The Oasis اسکول میں نویں جماعت میں داخلہ لیا، مگر صرف چھ ماہ بعد اپنی ماں سے کہا:
“ماں، اپنے ہاتھ میرے سر پر رکھو اور مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا، میں جا رہا ہوں!”
ماں نے پوچھا، “کہاں؟”
سلال نے جواب دیا، “بس ایک کام ہے، اس کی طرف جا رہا ہوں!”
یہ کہہ کر وہ گھر سے نکل گئے۔ اس وقت شاید ان کی ماں کو معلوم نہ تھا کہ ان کا بیٹا سرزمین کا سپاہی ہے۔ مگر سلال اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھ چکے تھے اور اس کے لیے جدوجہد کے سفر پر روانہ ہوگئے۔
جب پہلی بار میں فدائی سلال سے ملا، تو ہم دونوں ایک دوسرے کو نہیں پہچان سکے۔ مگر وقت کے ساتھ ہم قریب آگئے اور گہرے دوست بن گئے۔ 2016 میں ہم ایک دوسرے سے جدا ہوگئے، اور کئی سالوں تک ہماری کوئی ملاقات نہ ہوئی۔
2019 میں، میں دوبارہ سلال سے ملا۔ ایسا لگا جیسے میری روح میں جان آگئی ہو۔ مگر اس بار سلال مکمل طور پر بدل چکے تھے۔ وہ اپنی سرزمین کے عشق میں ڈوب چکے تھے۔ میں نے صرف 6 دن ان کے ساتھ گزارے، اور پھر ہم جدا ہوگئے، مگر رابطے میں رہے۔
2020 میں، جب سلال عمان گئے، تو میں نے ان سے پوچھا، “آپ عمان کیوں گئے ہو؟”
سلال نے جواب دیا، “میں نے دوستوں سے رابطہ کیا تھا کہ مجھے پہاڑوں پر جانا ہے، مگر وہ نہیں مان رہے تھے کہ ابھی میری عمر کم ہے۔ دوسری طرف، میرے گھر والے مجھ پر زور ڈال رہے تھے کہ عمان جاؤں، اس لیے میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ مگر یار، میں جلد بلوچستان واپس آؤں گا، پھر دوبارہ ضرور ملیں گے!”
باہر ملک میں رہنے کے باوجود سلال کے دل میں اپنے وطن کے لیے بے پناہ محبت اور عشق تھا اور یہی عشق اسے آخر اپنے وطن لے آئی۔
2021 میں، سلال کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ ماں کا بچھڑنا بہت تکلیف دہ تھا، مگر سلال حوصلہ مند تھے۔ وہ استاد اسلم بلوچ کے نظریے سے لیس تھے۔
فروری 2022 میں، میں آخری بار سلال سے ملا۔ ہم نے دو مہینے ایک ساتھ گزارے، جو میری زندگی کے سب سے خوشگوار لمحات تھے۔ وہ مکمل طور پر اپنی زمین کے ہو چکے تھے، ان کی ہر بات اور انکی شاعری کا ہر لفظ صرف سرزمین سے جڑی ہوتی تھی۔ اپریل 2022 میں ہم جدا ہوگئے، اور اس کے بعد ہمارا صرف رابطہ رہا۔ پھر آپریشن درہ بولان کا آغاز ہوا۔ جب میں نے سلال کا نمبر دیکھا، تو وہ آف لائن تھا۔ میرا دل ڈوب گیا، اور میرا شک یقین میں بدل گیا۔ جب حملے کے بعد میڈیا پر تصاویر آئیں، تو میں نے دیکھا کہ ایک عاشق شے مرید بھی تھا۔
سلال جان!
مجھے معاف کرنا، میں مصروف تھا، ورنہ آپ سے ضرور ملتا۔ آپ نے سچ کہا تھا، “یہ تمام جوان جو اس راہ میں گامزن ہیں، سب کے سب پاگل ہیں، کیونکہ عشق ہمیشہ انسان کو پاگل بنا دیتا ہے۔ اور یہ عشق، سرزمین کا عشق ہے اور اس عشق میں گرفتار عاشق اپنا سب کچھ فدا کردیتا ہے!”
کتنے ناز سے ماؤں نے اپنے جوان بیٹوں کو پالا، مگر جب بیٹوں نے ہوش سنبھالا، تو سرزمین کے عشق نے انھیں اپنا بنا لیا، اور ماؤں نے خوشی خوشی اپنے لختِ جگر کو قربان کر دیا۔
یہ عشق، خان محراب سے استاد اسلم تک قربانی کا تسلسل ہے، درویش سے بہار تک کا میراث ہے۔ وطن کی آزادی تک یہ سفر جاری رہے گی جس پر آج بھی ہر باشعور بلوچ فدا ہے۔
سلال جان!
اگر میں نے لکھنے میں کوئی کمی کی ہو، تو مجھے معاف کرنا۔
رخصت اف اوارن سنگت سلالو جان!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔