بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم) کے یوم انسانی حقوق کے حوالے سے ہفتہ بھر جاری رہنے والے مہم کے سلسلے میں نیدرلینڈز میں بھی بی این ایم کے کارکنان نے کئی پروگرامات کے ذریعے بلوچستان کی صورتحال کو عالمی برداری کے سامنے اجاگر کیا۔
دی ہیگ شہر میں ریلی نکالی گئی ، ڈچ پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور سینکڑوں پمفلٹ تقسیم کیے گئے۔بی این ایم کی طرف سے ڈچ پارلیمنٹ میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر ایک پٹیشن جمع کرائی گئی اور ملک کے وزیر دفاع بریکل مینز کو مخاطب کرکے حکومت کو خط لکھ کر مطالبہ کیا گیا کہ نیدرلینڈز حکومت اور ممبران پارلیمنٹ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اصولی موقف اپنا کر پاکستان کے اقدامات کی عوامی سطح پر مذمت کرے اور پاکستان کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے بین الاقوامی اقدامات کی حمایت کی جائے۔
’’ پاکستان کی جی پی ایس پلس تجارتی حیثیت واپس لینے کے لیے ڈچ حکومت کردار ادا کرئے اور اسے پاکستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ میں بہتری بالخصوص بلوچستان کی صورتحال سے مشروط کرئے۔‘‘
بی این ایم نیدر لینڈز چیپٹر کے صدر مہیم عبدالرحیم نے خط میں کہا حکومت پاکستان کی ’کِل اینڈ ڈمپ’ پالیسی کی وجہ سے بلوچ قوم بے یقینی اور خوف کی صورتحال میں ہے۔جبری گمشدگان کے ہزاروں خاندان نہیں جانتے کہ ان کے عزیز کہاں اور کس حال میں ہیں۔ جبر کے اس ماحول میں مقامی آبادی شدید غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔
انھوں نے کہا ہالینڈ کی انسانی حقوق کی حمایت کرنے کی ایک قابل فخر روایت ہے۔ ہم ڈچ حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ انصاف اور وقار کی جدوجہد میں بلوچ قوم کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کریں۔
ڈچ پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرے کے دوران بی این ایم نیدرلینڈز چیپٹر کے نائب صدر وحید بلوچ، باسط بلوچ، زھرہ بلوچ، ڈاکٹر لطیف ، واحد بلوچ، عبدالرحمان بلوچ ، قدیر ساگر بلوچ ، کیا بلوچ اور جواہر بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کا عالمی دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم بلوچوں کی آزادی ،حقوق اور شناخت کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائیں۔ پاکستانی فوج بلوچستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچ عوام کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے، ہزاروں بلوچ جبری گمشدگی کا شکار ہیں اور ہزاروں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں ہیں۔