قلات کی سرمااور عوام
تحریر: جعفر قمبرانی
دی بلوچستان پوسٹ
یقین جانے قلات بےیاروں مددگار ہے!
خون جمادینے والی سردی میں یخ بستہ ہواؤں کا راج اور لکڑی مہنگی۔۔۔
سستی شہرت والے صحافی اور نواب صاحبان کی کثرت۔۔۔
یقیناً اس لاوارث شہر کا عوام آج بھی اٹھارویں صدی میں جی رہا ہے۔
سوئی نہیں تو ایل پی جی گیس کی عدم موجودگی اعلی حکام، ڈسٹرکٹ انتظامیہ اور برائے نام میر و سرداروں کے جھوٹے دعووں پر کھڑی سوال ہے۔
مزید سنیں۔۔۔
سردیاں شروع ہوتے ہی قلات کا عوام غیر معینہ مدت کے لئے گھروں میں محسور ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سردی کا یہ عذاب مختصر ہوتی ہوگی بلکہ اکتوبر سے اپریل کے مہینے تک قلات میں یخ بستہ ہواوں کا راج ہوتا ہے۔ بازار، گلیاں تعلیمی ادارے لائبریریاں و کاروباری مراکز سنسان پڑ جاتے ہیں۔ زیارت کے بعد قلات شاید بلوچستان کا دوسرا سرد ترین علاقہ ہے جہاں ہربوئی کے سینہ تانے پہاڑوں سے جسم کو چیر پھاڑ دینے والی سرد ہوائیں شمشیر کی مانند جسموں میں پیوست ہوتی ہیں۔ نومبر کے بعد دن کے 12 بجے تک سڑکوں پر ویرانیاں راج کرتی ہے اور 5 بجے کے بعد لوگ گھروں سے نکلنے کو خدا کا عذاب سمجھنے لگتے ہیں۔
غرض، سردیاں شروع ہوتے ہیں قلات جنہم کا ایک سرد کنواں بن جاتا ہے جہاں سے آدھے سے زیادہ لوگ سہولیات نا ہونے کی وجہ سے ہجرت کرکے گرم علاقوں کی جانب رخت سفر باندھ دیتے ہیں۔
اور سوال یہ ہے کہ
جو لوگ نہیں جا سکتے ان کا کیا؟
المیہ یہی تو ہے کہ جو لوگ کسی بھی مجبوری کے تحت ہجرت کرکے نہیں جاسکتے انکی حالت زار پر کسی کو ترس آئی؟
سوئی گیس پائپ لائنوں کی حد تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
گرمیوں کے دنوں میں لوگ اسکی بو کو ترستے ہیں اور سردیوں میں تو اس کا نام لینا اور سننا بھی شاید باعث شرمندگی ہو۔
خاص کر ان لوگوں کیلئے جو منفی 13 کی درجہ حرارت میں بھی کمبل کا سہارا لیکر گھر کے کسی کونے میں پڑے ہوئے ہونگے۔
“پاوالوں” کے ہاں شاید بھیڑ بکریوں کی حالت بھی ایسی نا ہو جیسے یہاں انسانوں کی ہوتی ہے۔
خیر۔۔۔۔ ہم انسان تو ہے مگر ہے تو بلوچ!
بلوچ کی سسکیوں کو سننے والا کوئی ہے بلا؟
مسئلہ سردی کا نہیں، مسئلہ بےحِسی اور غریب عوام کی اس حالت کو نظر انداز کرنے کا ہے۔ قلات میں غریب عوام کا مختصر مگر درد بھری کہانی یہ کہ
گیس اور بجلی نا ہونے کے برابر ہے۔
لکڑیاں مہنگے داموں بکنے کے باعث خریدنا محال ہے۔
مانا کہ عوام شیر ہے مگر سویا ہوا۔
زبان زد عام ہے کہ کون اس خون جما دینے والی سردی میں اعلی حکام تک اپنی بات پہنچانے کیلے تگ و دؤ کریں!
ہربوئی و دیگر پہاڑی علاقوں سے خشک لکڑیاں لانا بھی اب ممکن نہیں رہا کہ اب وہاں خاکی بھیڑیوں کا راج ہے۔
کل ہی کی بات ہے کہ ایک معصوم کانپتے ہوئے بچے کو پلاسٹک اور کاٹن جمع کرتے ہوئے دیکھ لیا جو پلاسٹک اور کاغذ کے ٹکڑے بطور ایندھن استعمال کرنے کیلے کچرے کے ڈھیروں پر منڈلا رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی میری گنہگار زبان سے اک آہ نکلی اور ساتھ بددعا بھی۔۔۔ خدا غارت کریں غلامی کو، جس نے م ہمارے بچوں کی ایسی حالت بنائی ہے۔
خدا غارت کرے زمہ داران شہر کو جن کے اپنے بچے ہزار نخروں سے پلتے پولتے اور انکی طرح چور بن جاتے ہیں۔
ایسے چوروں کے خلاف زبانوں پر تالا لگانا کونسی معقولیت ہے بلا؟
حکام اور زمہ داران سے کوئی توقعات نہیں اسی لئے ان سے کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم عوام سے دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ اٹھو ۔۔۔۔
اٹھو اور اپنے حق کیلے آواز اٹھاؤ۔
اٹھو اور حکام کے بہرے کانوں میں اپنی درد اور سسکیوں کی آواز اور کراہٹیں پہنچادو۔
خداراں اٹھو ورنا سات نسلوں تک یوں کمبل اوڑھے سردیاں گزارنے ہونگے۔
کچھ نہیں تو کم سے کم ایل پی جی گیس ہی ہم سب بے یاروں مددگاروں کے غم کا مداوا کرسکیں اور اپنے کمروں میں بیٹھ کر آرام سے سرد راتوں کو گزار سکیں۔
قلات میں سوئی نہیں تو ایل پی جی گیس کا ہونا لازمی ہے۔ عوام کو چاہئیے کہ قلات میں ایل پی جی گیس فِٹنگ کی مطالبے کو لیکر بھرپور انداز میں اٹھ کھڑے ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں