شام کے دارالحکومت دمشق کے جنوب میں زرعی کھیتوں کے قریب مٹی کے ٹیلے ملک کی کئی اجتماعی قبروں کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں بشار الاسد کے دور حکومت میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں رکھی گئی ہیں۔
اسد کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد رہائشیوں، فرانزک ٹیموں اور بین الاقوامی گروپوں کو مرنے والوں کا پتہ لگانے کا کٹھن اور طویل کام درپیش ہے جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
امریکہ کے جنگی جرائم کے امور کے سابق سفیر اسٹیفن ریپ، جو منگل کو نجھا کے قصبے میں تھے، کہتے ہیں کہ صرف اس مقام پر کئی ہزار لاشیں دفن کی گئی ہوں گی۔
ان کے مطابق خیال کیا جاتا ہے کہ ہلاک شدگان قریبی قبرستان کی پہلے سے موجود قبروں کے نیچے بھی دفن ہیں۔
خبر رساں ادارے “ایسو سی ایٹڈ پریس” کے مطابق کھدائی شروع کرنا ابھی بہت جلد ہوگا اور یہ معلوم نہیں ہے کہ وہاں کتنی لاشیں باقی ہیں یا کچھ کو پچھلے سالوں میں کہیں منتقل کر دیا گیا ہے۔
سابق امریکی سفیر ریپ دو تنظیموں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جن کا مقصد اجتماعی قبروں کا اندراج کرنے اور جنگی جرائم میں ملوث اہلکاروں کی شناخت میں مدد کرنا ہے۔
کمیشن برائے بین الاقوامی انصاف اور احتساب اور شام کی ایمرجنسی ٹاسک فورس اور دوسرے گروپ برسوں سے گواہوں کی شہادتیں اور سیٹلائیٹ کی تصاویر کو دور سے اکٹھا کر رہے ہیں تاکہ ان اجتماعی قبروں کے متعلق جانا جا سکے۔
یہ تنظیمیں اس بات کو جاننے کی کوشش بھی کر رہی ہیں کہ اسد کی خوف زدہ کرنے والی سیکیورٹی ایجنسیوں کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں بنائی گئی اجتماعی قبروں کا سائز کیا ہے۔
واضح رہے کہ اسد حکومت نے سال 2011 میں شروع ہونے والی شام کی خانہ جنگی کے ابتدائی برسوں میں اپنے مخالفین کے خلاف سخت کریک ڈاون شروع کیا تھا ۔
اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اب ان تنظیموں کے نمائندے شام میں موجود ہیں تاکہ اسد دور میں موت کی مشینری کے بارے میں تفصیلات حاصل کی جا سکیں۔
سابق امریکی سفیر نے کہا، “یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اکیسویں صدی میں یہ کچھ ہورہا ہے۔”
شام کی “وائٹ ہیلمٹ” نام کی تلاش اور بچاؤ کی ٹیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر منیر المصطفیٰ کے مطابق اسد کی جیلوں میں غائب ہونے کے بعد 150,000 سے زیادہ شامی ابھی لاپتہ ہیں اور زیادہ تر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملک بھر میں اجتماعی قبروں میں دفن ہیں۔
امریکہ میں قائم شامی وکالت کی تنظیم “سیرین ایمرجنسی ٹاسک فورس” کے سربراہ کے مطابق دمشق کے باہر ایک اجتماعی قبر میں اسد کی سابق حکومت کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے کم از کم 100,000 افراد کی لاشیں ہیں۔
معاذ مصطفیٰ نے دمشق سے ایک ٹیلی فون انٹرویو میں خبر رساں ادارے “رائٹرز” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شام کے دارالحکومت سے 25 میل (40 کلومیٹر) شمال میں القطیفہ کے مقام پر یہ ان پانچ اجتماعی قبروں میں سے ایک تھی جن کی اس نے گزشتہ برسوں میں شناخت کی تھی۔
مصطفیٰ نے بتایا کہ اس مقام پر دفن لاشوں کی تعداد کا ایک لاکھ کا اندازہ کم از کم تعداد ہے۔ “یہ ایک انتہائی، انتہائی غیر منصفانہ طور پر قدامت پسندانہ تخمینہ ہے۔”
تاہم، خبر رساں ادارے رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وہ مصطفیٰ کے دعووں کی تصدیق نہیں کر سکا۔
اے پی کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے گروپوں، راز افشا کرنے والوں اور سابق قیدیوں کے مطابق، اسد حکومت کی فوج، انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیاں جیلوں میں منظم تشدد اجتماعی پھانسیوں اور وحشیانہ سلوک کرنے کے لیے بدنام تھیں۔
ان کے مطابق بہت سے قیدیوں کو بیماری اور بھوک سے بھی ہلاک کیا گیا۔
تنظیم وائٹ ہیلمٹس کے المصطفیٰ نے بتایا کہ ملک بھر میں کم از کم 13 اجتماعی قبروں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جن میں سے آٹھ دمشق کے قریب ہیں۔
ہلاک شدگان کی شناخت کے بارے میں انہوں نے کہا،”ہم ابھی ان اجتماعی قبروں کو نہیں کھول سکتے۔ اس سے پہلے کہ ہمیں ان لوگوں کی شناخت، اندراج اور نمونے لینے کا کام کرنا ہے جبکہ لاشوں کو کوڈ دینا ایک اور بہت بڑا کام ہے۔”