سوڈان: خرطوم پر فوج کے حملے میں بیس سے زائد افراد ہلاک

170

سوڈان میں امدادی رضاکاروں کا کہنا ہے کہ فوج نے دارالحکومت خرطوم کے جنوب میں آر ایس ایف کو نشانہ بنانے کے لیے ایک بازار پر حملہ کیا۔ فوج دارالحکومت پر دو بارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے نیم فوجی دستوں سے نبرد آزما ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنان اور رضاکاروں کے ایک نیٹ ورک نے اتوار کے روز بتایا کہ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں ایک بازار پر فوج کے فضائی حملے میں 23 افراد ہلاک ہو گئے۔

واضح رہے کہ دارالحکومت خرطوم کے بڑے حصوں پر فوج مخالف نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کا کنٹرول ہے، جو اپریل 2023 میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے ہی سوڈانی فوج سے بر سر پیکار ہے۔

ہم حملے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

ایک بین الاقوامی ادارے ایمرجنسی رسپانس رومز نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ہفتہ کی سہ پہر مرکزی بازار میں ہونے والے فوجی فضائی حملوں میں 23 ​​ہلاکتوں کے علاوہ 40 افراد زخمی بھی ہوئے۔

سوڈان ٹریبیون نیوز پورٹل نے شہر کے جنوبی پٹی میں رضاکارانہ امدادی کارکنوں کے ترجمان محمد کنڈیشا کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اس حملے سے رہائشی عمارتیں متاثر ہوئیں۔

کنڈیشا نے کہا، “بمباری نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے، جس سے مرکزی بازار کے علاقے میں بڑی تعداد میں اونچی عمارتیں متاثر ہوئیں۔”

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ خرطوم کے شہر اومبدرمن کے علاقے میں جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں، جب فوج نے دارالحکومت کی طرف پیش قدمی کی۔

لڑائی کے سبب ہزاروں ہلاک اور لاکھوں بے گھر

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ سوڈان میں جنگ کے دوران اب تک کم از کم 20,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ دوسرے اندازوں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 150,000 تک ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سوڈان میں کم از کم 10 ملین افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں، جس سے اب یہ دنیا کا سب سے بڑا نقل مکانی کا بحران بھی بن گیا ہے۔

اگست میں اقوام متحدہ نے اپنے ایک اندازے کے تحت مغربی دارفور کے علاقے میں زمزم پناہ گزین کیمپ میں قحط کا اعلان کیا تھا۔ یہ بیشتر علاقہ نیم فوجی دستوں آر ایس ایف کے کمانڈر محمد حمدان دگلو کے کنٹرول میں ہے۔

سرکاری فوج کے ساتھ کام کرنے والی حکومت، جس کی قیادت جنرل عبدالفتاح البرہان کر رہے ہیں، فی الوقت بحیرہ احمر کے ساحل پر واقع پورٹ سوڈان میں واقع ہے۔