حکومت پاکستان نے پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی عائد کردی

220

پاکستانی وزارت داخلہ نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے اتوار کو جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’ٹھوس شواہد کی روشنی میں پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘

وزاعت داخلہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی ایم ملک دشمن بیانیے اور انارکی پھیلانے میں ملوث ہے۔‘

وزرات داخلہ نے پی ٹی ایم پر پابندی کا نوٹیفکیشن باضابطہ طور پر جاری کر دیا ہے جس کے بعد اس پر عم درآمد کیا جائے گا۔

تاہم پی ٹی ایم کا کہنا ہے کہ اس کی کور کمیٹی کا اجلاس جاری ہے جس کے بعد اس معاملے پر باقاعدہ بیان جاری کیا جائے گا۔

دو روز قبل چار اکتوبر کو پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی ایم کی جانب سے ضلع خیبر میں طے شدہ ’قومی جرگے‘ کے حوالے سے کہا تھا کہ ’جرگہ منعقد ہونے دیں پھر دیکھیں گے کہ یہ کیا کرتے ہیں۔‘

’قومی جرگے‘ کے خلاف دائر درخواست کی سماعت جمعے کو پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی تھی۔

پی ٹی ایم کے ’قومی جرگے‘ کے خلاف ضلع خیبر کے رہائشی خاطراللہ نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں جرگہ روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست گزار کا موقف تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ملک میں عدالتیں موجود ہیں اور ضم اضلاع میں بھی عدالتیں قائم ہوچکی ہیں۔

’پی ٹی ایم نسل پرستی کو پروان چڑھا کر ضلع خیبر میں ’پشتون نیشنل کورٹ‘ کے نام سے متوازی عدالت قائم کرنا چاہتی ہے جس کے دعوت نامے بھی جاری کیے گئے ہیں۔‘

درخواست گزار کا موقف تھا کہ ’چونکہ جرگے اور پنچایت کے فیصلے غیر انسانی سزاؤں پر مبنی ہوتے ہیں لہذا عدالت پی ٹی ایم کے 11 اکتوبر کے جرگے کو روکے۔‘

اس سے قبل یکم اکتوبر کو پی ٹی ایم کا کہنا تھا کہ منگل کی شب پشاور پولیس نے ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں ’پشتون قومی جرگے‘ کی جلسہ گاہ پر چھاپہ مارا جبکہ بعد میں پولیس اور پی ٹی ایم کارکنان کے مابین جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے اپنے جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ پشاور پولیس کے چھاپے کے دوران فائرنگ اور شیلنگ بھی کی گئی ہے جس سے متعدد کارکنان زخمی ہوئے ہیں جبکہ خیمے بھی اکھاڑ دیے گئے۔

منظور پشتین کے بیان میں کہا گیا کہ اس کے بعد جرگہ منتظمین نے خیمے دوبارہ لگا دیے تھے جس پر بعد میں پولیس نے مبینہ طور پر شیلنگ اور فائرنگ کی، جس کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر چل رہی تھی۔

پی ٹی ایم 11 اکتوبر کو ضلع خیبر میں صوبے بھر میں جاری بد امنی کے خلاف ’پشتون قومی جرگہ/عدالت‘ کے نام سے ایک جرگہ منعقد کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

اس جرگے کے لیے خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، قوم پرست اور دیگر مختلف رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

یہ جرگہ تین دن جاری رہنا تھا جس کے لیے باقاعدہ شیڈول کا بھی اعلان کیا گیا تھا جس میں تینوں دن بلائے گئے جرگہ ممبران کی جانب سے مختلف نشستیں ہوں گی اور اس علاقے کے مسائل پر گفتگو کریں گے۔

جرگے کے لیے خیبر کے علاقے ریگی للمہ میں خیمے لگائے گئے تھے۔

منظور پشتین نے چھاپے کے بعد جاری بیان میں بتایا تھا کہ ’دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی ہمارے جرگے کو ناکام نہیں بنا سکتے اور ہم جرگہ کر کے رہیں گے۔‘

انہوں نے بتایا تھا کہ ’تمام کارکنان سامان اور بستر سمیت جرگہ گراؤنڈ پہنچ جائیں اور پولیس کی جانب سے چھاپے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ پولیس نے بعض بیمار کارکنان کو بھی گرفتار کیا ہے۔‘

منظور پشتین کے مطابق: ’ہم جرگہ پشتون خطے میں بد امنی کو کنٹرول کرنے کے لیے کر رہے ہیں لیکن شرم کا مقام ہے کہ ہم نعرے لگاتے ہیں کہ عوام اور پولیس ایک ہے لیکن پولیس نے جرگہ منتظمین پر اس وقت چھاپہ مارا جب وہ سو رہے تھے۔‘