استبول حملہ: کردوں نے اپنا حملہ بلوچ فدائین ماہل و رضوان سے منسوب کردیا

1652

پیپلز یونائیٹڈ ریوولیوشنری موومنٹ نے استنبول میں ایک حملے میں شیلی پلازہ میں سروس گاڑیوں کو نشانہ بنایا اور پورے پلازہ کو آگ لگادی-

ترکش میڈیا کے مطابق مسلح افراد نے ایک سرکاری عمارت میں داخل ہوکر وہاں کھڑی گاڑیوں اور دیگر مواد کو تباہ کرنے کے بعد فرار ہوگئے ہیں-

کرد اور ترک بائیں بازو کے گروپوں کے اتحاد “ایچ بی ڈی ایچ” کی جانب سے جاری بیان میں تنظیم کی جانب سے اس آپریشن کی ذمہ داری قبول کی گئی، اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ کارروائی ریاستی جبر اور کرد رہنماء عبداللہ اُجلان کی گرفتاری کے خلاف ان کی وسیع تر مزاحمت کا حصہ ہے۔

اس گروپ نے واضح طور پر اس حملے کو بلوچستان میں متحرک آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے نام پر وقف کرتے ہوئے بلوچ لبریشن آرمی کے فدائین ماہل بلوچ عرف زیلان کرد اور رضوان بلوچ عرف حمل کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے-

پیپلز یونائیٹڈ ریوولیوشنری موومنٹ کا یہ آپریشن ایسے موقع پر سامنے آیا جب گذشتہ ماہ بلوچ لبریشن آرمی نے ایک مربوط آپریشن کے تحت کے بلوچستان میں آپریشن ھیروف کے تحت پاکستان فورسز اور تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔

مذکورہ حملے میں حصہ لینے فدائین رضوان بلوچ اور خاتون فدائی ماہل بلوچ عرف زیلان کرد شامل تھیں، بلوچ لبریشن آرمی کے مطابق ماہل بلوچ نے زلان کرد کا نام کا انتخاب کرد آزادی پسند زینپ قناسی سے متاثر ہوکر اپنایا تھا۔

واضح رہے کہ پیپلز یونائیٹڈ ریوولیوشنری موومنٹ کرد اور ترکش بائیں بازو کے گروپوں کی ایک اتحاد ہے جس میں ترکی سمیت شام اور عراق میں متحرک کُرد آزادی پسند پارٹیاں اور ترکی کے بائیں بازوں کے سوشلسٹ تنظیمیں شامل ہیں۔

بلوچ کرد یکجہتی

تاریخی طور پر، دونوں بلوچ اور کرد ریاستی قبضے کے خلاف مزاحمت اور علاقائی طاقتوں کی جانب سے خود ارادیت سے انکار کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں، کرد اور بلوچ اقوام دونوں نے صدیوں سے جبر کا سامنا کیا ہے، اور آزادی کی دونوں تحریکوں نے اکثر اپنی جدوجہد کے درمیان مماثلتیں پیدا کی ہیں۔

بلوچ اور کرد آزادی پسند کثرت سے دونوں اقوام کے درمیان قوموں کی ثقافتی اور تاریخی قربت پر زور دیتے ہیں اور دونوں اقوام خود کو ایک دوسرے کے قریب دیکھتے ہیں جنھیں مختلف ریاستوں کی جانب سے شناخت ختم کیئے جانے کے خطرے کا سامنا رہا ہے۔

حالیہ برسوں میں، کرد اور بلوچ انقلابی تنظیموں کے درمیان تعاون اور باہمی تعاون میں شدت آئی ہے، دونوں جانب سے آزادی پسند گروپ ایک دوسرے کی جاری جدوجہد سے متاثر ہیں، استنبول میں ہونے والا حملہ ان انقلابی قوتوں کی ایک اور مثال ہے جو قومی آزادی کی اپنی اپنی لڑائیوں کو جاری رکھتے ہوئے تعلقات کو مضبوط کررہے ہیں۔

ترک ریاست، جو کرد آزادی پسندوں اور اپوزیشن گروپوں دونوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے مشہور ہے، کو اپنی جابرانہ پالیسیوں کے لیے بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے، جس نے نہ صرف کرد مزاحمت کو جنم دیا ہے بلکہ بلوچ جیسی دیگر مظلوم قوموں کے ساتھ بین الاقوامی یکجہتی میں اضافہ کیا ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچستان میں دیگر آزادی پسند تنظیمیں ریاستی افواج کے خلاف آزادی کے لیے اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں، HBDH کی طرف سے حالیہ اپنے سبوتاژی مہم کو بی ایل کے نام کرنا آزادی کی دونوں تحریکوں کے درمیان ایک مضبوط بندھن کی عکاسی کرتا ہے اگرچہ دونوں تحریکیں الگ الگ علاقوں میں کام کرتی ہیں اور انہیں منفرد چیلنجز کا سامنا ہے، وہ اپنے لوگوں کے لیے آزادی اور خودمختاری کے مشترکہ خواب کے ساتھ متحد ہیں۔