گوادر: ہمارے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے ریاستی ادارے مزید طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ

736

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا آج آٹھویں روز بھی جاری ہے۔

دھرنے میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہیں ۔ اس حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ گوادر میں پرامن دھرنا مکمل انصاف ملنے تک جاری رہے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ دس دنوں سے گوادر سمیت پورے مکران میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک بند ہیں۔ تمام سڑکیں، شاہراہیں، دکانیں اور بازار زبردستی بند کر دئے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے۔

مزید برآں گوادر میں پانی کی سپلائی منقطع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ظلم و جبر بلوچستان میں ایک شدید انسانی بحران کا باعث بنے گی۔ ہمیں شدید تشویش ہے کہ بلوچستان میں اس صورتحال کی وجہ سے ہزاروں جانیں خطرے میں ہیں، اس کے باوجود دنیا اس تباہی کو دیکھ کر خاموش ہے۔ آپ کی خاموشی لاکھوں جانوں کے ضیاع کا باعث بن سکتی ہے۔ اپنی آواز بلند کریں اور لاکھوں جانیں بچانے میں مدد کریں۔

دوسری جانب بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر اور کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام دھرنوں اور احتجاج کا سلسلہ اتوار کو آٹھویں روز بھی جاری رہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر نے کہا ہے کہ وہ گوادر میں ہزاروں افراد کے ہمراہ موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے خلاف کریک ڈاؤن کا جواز فراہم کرنے کے لیے ریاستی مشینری کا استعمال کیا جارہا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ڈیڈلاک کے خاتمے میں پیش رفت نہ ہونے کی ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اول تو حکومت نے پُرامن احتجاج پر تشدد کیا جبکہ اب ہمارے مطالبات پر عملدرآمد نہیں کررہی ہے۔

سماجی رابطوں کی میڈیا ایکس پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر ماہ رنگ بلوچ کی کا ایک پیغام سامنے آئی ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر رہنما ہزاروں افراد کے ہمراہ گوادر میں موجود ہیں۔ راستوں اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے گوادر شہر کا رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کنٹرولڈ‘ میڈیا نے ہمیشہ اس طرح ہمیں پیش کیا کہ ہم متشدد ہیں اور مذاکرات نہیں چاہتے ہیں لیکن ریاستی تشدد کے باوجود ہم شروع دن سے پر امن رہے ہیں۔اس پیغام میں انھوں نے تشدد کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پہلے دن سے پرامن تھے لیکن ریاست کی جانب سے شاہراہوں اورانٹرنیٹ کو بند کیا گیا اورپر امن مظاہرین پربراہ راست گولیاں چلائی گئیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے مطالبات واضح ہیں جن میں سے ایک ان فورسز کے خلاف مقدمات کا اندراج ہے جنھوں نے مستونگ، گوادر، تلار اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں مظاہرین پر گولیاں چلائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گوادر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ’بلاکیڈ‘ کا خاتمہ کیا جائے اور یہ ضمانت دی جائے کہ ریاستی فورسز مزید طاقت اور تشدد کا استعمال نہیں کریگی۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں، ہمدردوں اور گوادر کے رہائشیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت یہ اعتراف کرے کہ اس نے ایک پرامن تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ ان تمام افراد کو رہا کیا جائے جو کہ بلوچ قومی اجتماع کے انعقاد سے پہلے یا بعد میں گرفتار کیے گئے اور فورسز نے جن لوگوں کی گاڑیوں اور املاک کو جو نقصان پہنچایا اس کا ازالہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے ریاستی ادارے مزید طاقت کا استعمال کر رہے ہیں اور مجھے اور ’بی وائی سی‘ کی قیادت کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو خطرہ ہے کیونکہ اب ہمارے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے جواز فراہم کرنے کے لیے ریاستی مشینری کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

‘انہوں نے کہاکہ اب حالات نواب بگٹی کے دور کے مشابہ ہیں جب ایک طرف مذاکرات کا دعویٰ کیا جا رہا تھا جبکہ دوسری جانب طاقت کا استعمال کیا گیا۔