بنگلہ دیش: پرتشدد جھڑپوں میں کم از کم 25 ہلاک، ملک میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل

147

بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں میں کوٹے کے نظام کے خلاف احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے اور پرتشدد جھڑپوں میں اب تک 25 افراد کی ہلاکت جبکہ سینکڑوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔

ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال میں پولیس چوکی کے انچارچ بچوچو میاں نے تصدیق کی ہے کہ ہسپتال میں گیارہ لاشوں کو لایا گیا جبکہ دیگر مقامی ہسپتالوں سے آنے والی معلومات کے مطابق صرف ڈھاکہ میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے شمال میں رنگ پور شہر میں بھی ایک طالب علم گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔

ملک میں جاری مظاہروں کی وجہ سے جمعرات کی رات سے انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے جبکہ جمعرات کو ہی مظاہرین نے سرکاری ٹی وی کی عمارت پر بھی دھاوا بول کر وہاں شدید توڑ پھوڑ کی ہے۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں یونیورسٹی کے طلبہ کئی دن سے سرکاری نوکریوں میں 1971 میں پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کے اہلخانہ کے لیے مختص کوٹے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان افراد کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہے جنھیں بنگلہ دیش میں ’آزادی کی جنگ کا ہیرو‘ مانا جاتا ہے تاہم طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ نظام متعصبانہ ہے اور سرکاری نوکری صرف میرٹ کی بنیاد پر ہی ملنی چاہیے۔

احتجاج میں شریک طلبہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انھیں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے حالیہ بیان نے طیش دلایا جس میں ان طلبا کے مطابق وزیر اعظم نے کوٹہ نظام کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو 1971 کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے والے ’رضاکاروں‘ سے تشبیہ دی۔

بنگلہ دیش میں یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جنھوں نے مبینہ طور پر 1971 کی جنگ میں پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا تھا۔

متعدد طلبہ رہنماؤں نے کہا ہے کہ شیخ حسینہ واجد نے رضاکاروں سے موازنہ کر کے ان کی توہین کی ہے۔ ان کے مطابق اس موازنے کی وجہ سے ہی عوامی لیگ کے اراکین کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ وہ احتجاج کرنے والوں پر حملہ آور ہوں۔

تاہم حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کے بیان کا غلط مطلب لیا گیا اور انھوں نے طلبہ کو رضاکار نہیں کہا۔

ملک کے دارالحکومت ڈھاکہ سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے دوران اس نظام کے مخالفین اور برسراقتدار عوامی لیگ کے طلبہ کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن کے دوران لاٹھیوں اور اینٹوں کا استعمال ہوا۔

پولیس کی جانب سے آنسو گیس برسائی گئی اور ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں جس کی وجہ سے سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔

بنگلہ دیش کی حکومت نے نیم عسکری فورس، بارڈر گارڈز بنگلہ دیش کو ڈھاکہ اور چٹاگانگ سمیت پانچ مرکزی شہروں میں تعینات کر دیا ہے۔

عبد اللہ کوٹہ نظام کی مخالفت کرنے والی تحریک کے منتظمین میں سے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم عوامی لیگ کے اراکین کو تشدد کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ انھوں نے مظاہرین کو ہلاک کیا۔ پولیس نے عام طلبہ کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘

بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہوں کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم تقریباً نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہیں۔

تاہم اس نظام کے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اور عوامی لیگ کی حمایت کرنے والے اس نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد، جو ملک کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب کی بیٹی ہیں، جنوری میں چوتھی بار انتخابات جیت چکی ہیں۔