ریاست باور کرائے کہ ہم خود کو یتیم تصور کریں یا زندہ باپ کے اولاد۔ سمی بلوچ

291

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سیکر ٹری جنرل اور لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی صاحبزادی سمی دین بلوچ نے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں اپنے والد کی جبری گمشدگی کو 15 سال مکمل ہونے پر کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست پاکستان ہمیں باور کرا ئے کہ ہم خود کو یتیم تصور کریں یا زندہ باپ کے اولاد ہیں۔

اس موقع پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ ، لالہ وہاب اور سمی دین کی چھوٹی بہن مہلب بلوچ بھی موجود تھیں۔

سمی بلوچ نے کہا کہ جیسا کہ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ انسانی حقوق کے حوالے سے ایک سنگین مسئلہ ہے، یہ بلوچستان اور پاکستان بھر میں انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے، لاپتہ افراد کی فہرست میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ریاست آج تک سنجیدہ نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی ریاستی خفیہ اداروں اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کو آج پندرہ سال کا طویل عرصہ مکمل ہو گئے ہیں، میرے والد صاحب بلوچستان کے دورافتادہ اور پسماندہ علاقہ اورناچ خضدار میں سرکاری ڈیوٹی پہ تعینات تھے، اسے دوران ڈیوٹی سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے غیر قانونی حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کر دیا ، پندرہ سال گزرنے کے باوجود آج تک ہمیں اسکی کوئی خیر خبر نہیں ملی ہے، میرے والد جہاں سے اٹھائے گئے وہاں قریب میں پولیس اسٹیشن واقع ہے، ایف سے کیمپ بھی ہے، میرے والد خود ایک سرکاری ملازم تھے، عدلیہ اور ریاستی اداروں پہ فرض عائد ہوتی تھی کہ وہ میرے والد کی بازیابی میں کردار ادا کرتے لیکن بجائے کہ اسکی بازیابی میں مثبت کردار ادا کرتے الٹا ہمیں مسلسل تنگ کیا جاتا رہا ہے، والد کی بازیابی کے سلسلے میں ہم ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک پیش ہوئے ہیں، 2016 میں سپریم کورٹ نے ہمارے والد کی گمشدگی کے کیس کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیرون ملک چلے گئے ہیں یا فراری کیمپوں میں ہیں، لیکن یہ بیان ہمارے لیے قابل قبول نہیں، سپریم کورٹ جیسے بڑے ملکی ادارے کو یہ بات ثابت کرنا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسکے باوجود بھی ہم ملکی اداروں کا احترام کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے بھی پیش ہوتے رہے ہیں، کمیشن میں ہمیشہ الٹے سیدھے سوالات سے ہماری تذلیل کی جاتی رہی ہے اور ہمیں ھراساں کیا گیا، ہمیں اس طرح اذیت دی گئیں تاکہ ہم اپنے والد کی بازیابی کیلئے جدوجہد سے دستبردار ہو جائیں ۔

سمی بلوچ نے کہا کہ ہم نے اس ملک کے ایک پر امن اور جمہوریت پسند شہری ہونے کے ناطے اس ملک کے تمام اداروں کے در کھٹکھٹائے ہیں، ملک کے عدالتی نظام پہ بھروسہ رکھتے ہوئے عدالتی قائم کردہ کمیشن میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں، احتجاج کے تمام تر طریقہ کار آزمائے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان پندرہ سالوں میں میرے والد کی جدائی سے ہماری پوری فیملی متاثر ہوئی ہے، ہماری خاندان ایک شدید غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہیں۔ڈاکٹر دین جان کے والد، بہن اور بھائی انہی پندرہ سالوں میں زندگی کے بازی ہار گئے، زندگی کے آخری سانس تک یہ آس لگائے رکھے تھے کہ وہ اپنے گمشدہ عزیز کو دیکھ پائیں گے، درد کے ان لمحات کو میں شاید لفظوں نا بیان کر سکوں، مجھے اور میرے بہن بھائی کو ریاست یہ باور کرا دے کہ ہم خود کو اب یتیم تصور کریں یا ہم ایک زندہ باپ کے اولاد ہیں اور ایک دن وہ ہمارے زندگی میں واپس لوٹیں گے، میری والدہ کو کم از کم یہ بتایا جائے کہ وہ اب تک دین جان کی شریکہ حیات ہیں یا وہ بیوہ ہو گئی ہیں ۔

سمی بلوچ کا کہناتھا کہ ہم اس ریاست سے ان سوالات کا جواب مانگنے کا حق رکھتے ہیں۔
ان پندرہ سالوں میں ہم تین بار اسلام آباد لانگ مارچ کر چکے ہیں، تین دفعہ اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دیکر بیٹھے رہے ہیں، ہمیں محض طفل تسلیاں دی گئیں جبکہ آخری دفعہ تو ہم سے ریاستی ادارے کا زمہ دار یا کوئی حکومتی بندہ ہمیں جھوٹے تسلیاں تک دینے نہیں آئے بلکہ اسلام آباد پہنچنے پہ ہمارا استقبال لاٹھیوں اور ٹھنڈے پانی برسا کر کیا گیا، ہمیں جیلوں میں ڈال کر ہمیں اسلام آباد بدر کرنے کی تیاری کی گئی لکن ہم نے دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ مل کر اپنا پر امن دھرنا جاری رکھا، ہم نے کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے دیا ۔اسکے باوجود جب ہم نکلتے ہیں تو ہمیں مختلف حربوں سے تنگ کیا جاتا ہے، سوشل میڈیا پہ ٹرولز کیا جاتا ہے، ہمارے پرامن جدوجہد کو غلط رنگ دیا جاتا ہے، اسکے باوجود کہ اس مسئلے کو قانونی طور پر ڈیل کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ میرا ایک سادہ سوال ہے اس ریاست سے کہ میرے والد صاحب پہ کونسا ایسا بڑا الزام عائد کیا گیا ہے جسے ملکی عدالتوں تک پیش نہیں کیا جا رہا ہے، یہاں تو بڑے سے بڑے مجرموں کو سامنے لایا گیا ہے۔ ریاست کو اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے والد کی جبری گمشدگی کے حوالے سے ہمیں جوابدہ ہونا چاہیے، ڈاکٹر دین محمد زندہ ہیں یا دوران تحویل ریاستی تشدد سے شہید بھی ہو گئے ہیں تب بھی ریاست کو اس اخلاقی جرات اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں بتانا چاہیے یہ جاننا ہمارا بنیادی حق ہے، پندرہ سالوں میں مسلسل ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور کمیشن میں پیش ہونے کے بعد صرف ناامیدی ملی ہے، لکن ہم اپنے جدوجہد میں مایوس نہیں ہوں گے، ہم بین الاقوامی انصاف اور انسانی حقوق کے اداروں تک اپنی فریاد ضرور پہنچا دیں گے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ایک دن ضرور اُن تمام اداروں اور کرداروں کو جوابدہ کریں گےجو میرے والد کی جبری گمشدگی میں شریک جرم رہے ہیں۔

سمی دین بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے اس سنگین سلسلے کو روکنے اور گمشدہ افراد کی بازیابی کے اس جدوجہد کو ہم اکیلے نہیں لڑ سکتے اس میں ہمیں آپ صحافی برادری، انسانی حقوق کے کارکنان، سیاسی اور سماجی کارکنان سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں کے ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے درد دل رکھنے والے لوگوں سے اپیل کرتی ہوں کہ آئیے اور اس جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں، میرے والد کی جبری گمشدگی کو آج پندرہ سال مکمل ہوگئے ہیں، یہ پندرہ سال ہم نے پل پل اذیتوں کے ساتھ گزارے ہیں، ہم نے اپنی بچپن ان سڑکوں پہ گزاری ہے، ہم اپنے آبائی علاقہ سے در بدر ہو گئے ایک امید لگائے رکھے ہیں کہ ایک نا ایک دن میرے والد ضرور واپس لوٹیں گے، لکن جس طرح سال بڑھتے جا رہے ہیں ہمارے خدشات میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ہم ایک دفعہ پر اس ریاست سے ایک سادہ سا جواب چاہتے ہیں، انہیں ہمیں بتانا پڑے گا کہ میرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ زندہ ہیں یا انہیں شہید کیا گیا؟

آخر میں سمی کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں کے خلاف یہ جدوجہد ہم یا لاپتہ افراد کے لواحقین اکیلے نہیں لڑ سکتے اس میں ہمیں آپ تمام لوگوں کی ضرورت ہے، یہ انسانی بقاء کا معاملہ ہے، آئیے بقاء اور زندگی کے جینے کی حق کی جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔