بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا دن – ٹی بی پی اداریہ

132

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا دن

ٹی بی پی اداریہ

حالیہ دنوں بلوچستان میں نوجوانوں بالخصوص طلباء کی جبری گمشدگیوں میں تیزی آئی ہے اور اُن کی بازیابی کے لئے احتجاج کا طویل سلسلہ بھی جاری ہے۔ ضلع کیچ کے مرکز تربت میں بلیدہ کے دس خاندان اپنے جبری گمشدہ پیاروں کی بازیابی کے لئے کمشنر آفس کے سامنے دھرنا دے رہے ہیں اور کوئٹہ و خضدار میں بھی جبری گمشدہ افراد کے لواحقین سراپا احتجاج ہیں۔

بلوچ طالب علم رہنما زاکر مجید کے جبری گمشدگی کو پندرہ سال مکمل ہوچکے ہیں، اسی دن کی مناسبت سے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نے دو ہزار سولہ میں آٹھ جون کے دن کو بلوچستان میں جبری گمشدگیوں سے منسوب کیا تھا۔ زاکر مجید کی بہن اور ماں نے اِن پندرہ سالوں میں پاکستان کے عدالتوں اور کمیشنوں کے بے شمار چکر لگائے اور احتجاج کے سارے راستے اپنائے لیکن زاکر مجید بازیاب نہ ہوسکے۔

جنرل مشرف کی فوجی آمریت میں بلوچ انسرجنسی کی انسداد کے لئے جبری گمشدگیوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا اور دو دہائیوں کے بعد بھی یہ پالیسی جاری ہے۔ ریاست جبری گمشدگیوں اور جبر سے بلوچ انسرجنسی کو ختم نہ کرسکا لیکن جبری گمشدگیوں کے خلاف ابھری تحریک کی گونج اب عالمی اداروں میں سنی جاری ہے۔

جبری گمشدگیوں اور جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کے باجود بلوچ آزادی کے تحریک جاری ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ریاستی جبر سے تحریک کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے ۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف ابھری تحریک نے بلوچ سماج میں خوف کے ماحول کو ختم کردیا ہے اور اگر ریاستی جبر اِسی طرح جاری رہا تو بعید نہیں کہ جبر کے ردعمل میں سیاسی مزاحمت بھی اسی شدت سے جاری رہے گی۔