امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن مشرق وسطیٰ کے چار ممالک کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ ایک ایسے وقت پر مصری دارالحکومت قاہرہ پہنچے ہیں، جب اسرائیل اور لبنان کے مابین بھی کشیدگی میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔
سفارتی ذرائع نے بتایا کہ بلنکن اس دورے کے دوران کوشش کریں گے کہ امریکہ، قطر اور مصر کی طرف سے تجویز کردہ غزہ میں جنگ بندی کی ڈیل پر کوئی پیش رفت ہو سکے۔
دریں اثناء امریکہ نے کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ ہی کی تجویز کردہ اس قرارداد پر ووٹنگ کرانے کا مطالبہ کیا ہے، جس میں حماس اور اسرائیل کے مابین ‘فوری سیز فائر‘ کے منصوبے کی حمایت کی گئی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ بلنکن اپنے تین روزہ دورہ مشرق وسطیٰ کے آغاز پر قاہرہ پہنچے ہیں، جہاں انہوں نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کی۔ بند کمرے میں ہونے والی اس ملاقات میں مصری خفیہ ادارے کے سربراہ عباس کمال بھی شریک تھے۔
مصری صدر کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق السیسی اور بلنکن نے جنگ بندی اور قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔
بلنکن کی مصروفیات کیا ہوں گی؟
امریکی وزیر خارجہ قاہرہ کے بعد اسرائیل میں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملیں گے اور پھر اردن اور قطر کے دورے بھی کریں گے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں اس سیز فائر ڈیل پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے، جو امریکی صدر جو بائیڈن نے اکتیس مئی کو پیش کی تھی۔
سیز فائر کی اس مجوزہ ڈیل میں تین مرحلوں میں غزہ میں قیام امن کو ممکن بنانے کی بات کی گئی ہے۔ اس ڈیل کے تحت حماس کے جنگجو تمام یرغمالیوں کو آزاد کریں گے اور غزہ میں اسرائیلی کارروائی روک دی جائے گی۔
اسرائیل اور حماس دونوں نے ابھی تک اس مجوزہ ڈیل پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم اگر حماس کو نیست و نابود کیے بغیر غزہ میں عسکری کارروائی روکنے کے حق میں نہیں ہیں تو حماس کے جنگجو بھی غزہ میں مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے انخلا تک کسی ڈیل کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
تمام یرغمالیوں کی واپسی ڈیل کے بغیر ممکن نہیں، اسرائیلی فوج
گزشتہ ویک اینڈ پر اسرائیلی دفاعی افواج نے چار مزید یرغمالیوں کو حماس کے جنگجوؤں سے آزاد کرا لیا تھا۔ اس پیش رفت پر اسرائیل بھر میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔
تاہم اسرائیلی دفاعی افواج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہگاری نے کہا کہ صرف ملٹری فورس سے تمام یرغمالیوں کی واپسی ممکن نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر یرغمالیوں کی واپسی ڈیل سے ہی سکتی ہے۔
ادھر ہزاروں اسرائیلیوں نے تل ابیب میں مظاہرے کیے اور مطالبہ کیا کہ حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ ڈیل کی جائے۔
گزشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں نے حملہ کرتے ہوئے کم ازکم بارہ سو افراد کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ ڈھائی سو کے قریب افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔
حماس اور اسرائیل کے مابین ایک ڈیل کے تحت سو یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اس وقت بھی تقریباً 80 یرغمالی حماس کی قید میں ہیں جبکہ چالیس سے زائد ہلاک ہو چکے ہیں۔
گینٹس کی نیتن یاہو حکومت سے علیحدگی
اسرائیل کی جنگی کابینہ کے وزیر بینی گینٹس نے اپنے استعفیٰ کا اعلان کر دیا ہے۔ گینٹس کی سینٹرسٹ پارٹی کی طرف سے اسرائیلی وزیر اعظم کی حکومت کو خیر باد کہنے سے حکومتی اتحاد کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔
یہ اتحاد پارلیمنٹ کی 120 نشستوں میں سے 64 پر کنٹرول رکھتا ہے لیکن گینٹس کے جانے سے حکومت کے استحکام پر سنگین اثر پڑ سکتا ہے۔
اب نیتن یاہو کو انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست جماعتوں کی سیاسی پشت پناہی پر زیادہ انحصار کرنا پڑے گا، جن کے رہنما جنگ سے پہلے ہی واشنگٹن کو ناراض کر چکے تھے اور جنہوں نے غزہ پر مکمل اسرائیلی قبضے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ اس مطالبے نے امریکہ کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات میں پہلے سے ظاہر ہونے والے تناؤ میں اضافہ کیا اور اندرون ملک عوامی دباؤ کو بھی بڑھایا ہے۔