رواں ہفتے انڈیا اور ایران کے درمیان چابہار بندرگاہ کے انتظامات چلانے کے لیے ایک دس سالہ معاہدہ طے پایا ہے جس کے بعد اس خطے میں اقتصادی اور سیاسی منظرنامہ خاصا دلچسپ ہوگیا ہے۔
انڈیا کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے پورے خطے کو فائدہ پہنچے گا لیکن امریکہ نے اس معاہدے کے حوالے سے انتباہ جاری کیا ہے کہ ایران سے جو بھی ملک کسی بھی طرح کا تجارتی معاہدہ کرتا ہے اسے ممکنہ پابندیوں کے حوالے سے بھی آگاہ رہنا چاہیے۔
انڈیا نے امریکہ کی اس وارننگ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ امریکی انتطامیہ کے ترجمان کے پاس اس معاملے کے حوالے سے درست معلومات موجود نہیں ہیں اور یہ کہ امریکہ پابندیوں کی بات کر کے تنگ نظری کا مظاہرہ نہ کرے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے سنہ 2016 میں ایران کے دورے کے دوران انڈیا، ایران اور افغانستان کے درمیان چابہار کی ’شہید بہشتی بندرگاہ‘ پر انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ کوریڈور تعمیر کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
انڈیا ایرانی حکومت کے ساتھ اس بندرگاہ کے پہلے مرحلے کی تعمیر میں بھی تعاون کر رہا ہے۔ امریکہ نے ایران کے خلاف تجارتی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں لیکن انڈیا کی حکومت نے امریکہ کی سابقہ ٹرمپ انتطامیہ سے مذاکرات کے بعد چابہار بندرگاہ کی تعمیر کے لیے استثنیٰ یعنی چھوٹ حاصل کر لی تھی۔
یہ انڈیا کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی لیکن اس چھوٹ کے باوجود اس پراجیکٹ میں کافی تاخیر ہوئی کیونکہ بندرگاہ تعمیر کرنے میں مہارت رکھنے والی متعلقہ بین الاقوامی کمپنیاں امریکی پابندیوں اور بلیک لسٹ ہونے کے خوف سے ایران میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئیں۔
رواں ہفتے کے آغاز پر ایران اور انڈیا کے درمیان ہونے والے معاہدے سے اس پراجیکٹ پر کیا اثر پڑے گا یہ اس وقت بتانا مشکل ہے، لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے بین الاقوامی پابندیوں کے سبب انڈیا اور ایران کی باہمی تجارت میں بتدریج کمی آئی ہے۔
چابہار ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں گہرے سمندر میں واقع بندرگاہ ہے۔ انڈیا سے یہ ایران کی سب سے قریبی بندرگاہ ہے اور کُھلے سمندر میں واقع ہونے کے سبب یہ بڑے مال بردار بحری جہازوں کو محفوظ اور آسان آمد و رفت کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ اس بندرگاہ کے راستے انڈیا افغانستان، وسطی ایشیا اور دیگر ممالک کو اپنی اشیا برآمد کر سکے گا۔
عالمی اُمور کی پروفیسر ڈاکٹر ریتوشا تیواری کہتی ہیں کہ ’انڈیا کے لیے یہ معاہدہ علاقائی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ انڈیا اپنی تجارت وسطیٰ ایشیا تک پہنچانا چاہتا ہے۔ چابہار چونکہ خلیج عمان میں واقع ہے اس لیے اس سے انڈیا کو انٹرنیشنل نارتھ، ساؤتھ کوریڈور سے خود کو جوڑنے میں مدد ملے گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے اسے ایران کے راستے روس تک ایک براہِ راست تجارتی راستہ بھی مل جائے گا۔ چابہار بندرگاہ گجرات کی کانڈنہ بندرگاہ سے محض 550 بحری میل کی دوری پر ہے اور ممبئی کی بندرگاہ سے 786 میل دور ہے۔ انڈیا نے یہ معاہدہ بہت صحیح وقت پر کیا ہے۔‘
ڈاکٹر ریتوشا کہتی ہیں کہ ’چابہار سے محض 70 بحری میل کی دوری پر پاکستان گوادر میں چین کی مدد سے ایک جدید ٹریڈ ہب تعمیر کر رہا ہے لیکن ایران کے کوریڈور میں پاکستان کے لیے شامل ہونا مشکل ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کا بنیادی سبب چین اور پاکستان کے درمیان معاہدے کی نوعیت اور انڈیا سے پاکستان کے تعلقات کے علاوہ جو وہاں (بلوچستان) کی جغرافیائی اور سیاسی صورتحال ہے، جو اس کا حصہ بننے میں رکاوٹ بنیں گی۔‘
انڈیا ایک عرصے سے افغانستان تک اپنی برآمدات پہنچانے کے لیے پاکستان سے خشکی کے راستے راہداری مانگتا رہا ہے لیکن دونوں ملکوں کے کشیدہ تعلقات کے سبب اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی لیکن اب دنیا کے ملکوں میں سوچ بدل رہی ہے۔
انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کے سکالر ڈاکٹر فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ آٹھ، دس برس میں بین الاقوامی سیاست میں اقتصادیات ایک بہت اہم پہلو کے طور پر شامل ہو گیا ہے۔ آپ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کو دیکھ لیجیے اور معیشت کے پہلو کے ساتھ جو بات ہو رہی ہے وہ ہے ’کنکٹیویٹی‘ یعنی رابطہ کاری اور تجارتی راستے۔
’یہ عالمی سیاست میں ایک بہت اہم پہلو بن چکا ہے کہ گلوبلائزڈ دنیا میں ایک ملک دوسرے ملک تک کیسے پہنچے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ دوسری جانب اب ’ایران بھی امریکہ کی عالمی پابندیوں سے پیدا ہونے والی مشکلات سے نکلنا چاہتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ایران کسی نہ کسی صورت میں گذشتہ ’تیس، چالیس برس سے پابندیوں کا شکار رہا ہے۔ اب جب کہ عالمی سیاست اور اقتصادیات پر امریکہ کی اجارہ داری بظاہر کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے اور ایک ملٹی پولر نظام ترتیب پا رہا ہے تو ایران کو روس، چین اور انڈیا جیسے ملکوں سے تجارت کا ایک متوازی راستہ مل رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’چابہار معاہدے کے پیچھے یہی سوچ کار فرما ہے۔ انڈیا اور ایران کے رشتے تاریخی طور پر ہمیشہ قریبی رہے ہیں۔ انڈیا ایک بڑی ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے۔ چابہار انڈیا، افغانستان، ایران، وسطی ایشیا اور روس سے تجارت کے راستے کھول دے گا۔ اس سے انڈیا اور ایران دونوں کو فائدہ ہو گا۔‘
یہان انڈیا میں اس معاہدے کو چین اور پاکستان کے گوادر اکنامک کوریڈور کے جواب کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے لیکن دوسری جانب چین نے بھی ایران میں تقریباً چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
ایران کے تعلقات روس سے بھی بہت اچھے ہیں اور سرحدی کشیدگی کے سبب انڈیا کے چین سے تعلقات گذشتہ چار برس سے تناؤ کا شکار ہیں لیکن ان تمام رکاوٹوں کے باوجود دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کا حجم بڑھتا جا رہا ہے۔
پچھلے دنوں چین باہمی تجارت میں امریکہ کو پیجھے چھوڑتے ہوئے انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن گیا ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمان کہتے ہیں کہ ’ایک عرصے سے ایران اپنے خطے میں جو ٹکراؤ چل رہا ہے اس سے خود کو الگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
’ابھی حال ہی میں ایران کے صدر نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ وہاں بھی ان کا ایک پیغام تھا کہ چین اور پاکستان کے گوادر اور انڈیا اور ایران کے چابہار جیسےاقتصادی کاریڈور کے بارے میں اگر دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی تشویش دور نہیں کی، ایک دوسرے سے اقتصادی تعاون نہیں کیا اور اگر ایک دوسرے کو آٹانومی نہیں دیں گے تو پھر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس میں سینرجی (یعنی مل کر کام کرنے) کا بہت سکوپ ہے۔ چین کے تعلقات پاکستان سے بہت پرانے ہیں۔ چین پچھلے آٹھ، دس برس میں ایران سے بھی بہت قریب آ گیا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ ٹکراؤ پیدا کرنے کے بجائے ایک طرح کی سینرجی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس میں ہر پارٹی کو اتنی جگہ ملے گی کہ وہ اپنے افتصادی منصوبوں کو اور اپنے اقتصادی مستقبل کو محفوظ کر سکیں۔‘
انڈیا نے پچھلے چند برس سے ایک ایسی پالیسی اختیار کی ہے جس میں اس کا اقتصادی مفاد سب سے بڑھ کر ہے۔
ایک طرف اگر اس کے امریکہ سے اچھے تعلقات ہیں تو دوسری جانب اس نے روس سے بھی اتنے ہی گہرے تعلقات برقرار رکھے ہیں۔
چین سے کشیدہ تعلقات کے باوجود وہ انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ پاکستان میں ایک نئی حکومت آئی ہے اور گذشتہ سالوں کی سیاسی غیر یقینی نے پاکستان کو اقتصادی طور پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں استحکام کے بعد سیاست کا فوکس معیشت ہوگی۔ چابہار کا معاہدہ ٹکراؤ کے بجائے خطے کی سیاست میں مثبت تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔
انڈیا کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے بھی گذشتہ دنوں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ ’میرے خیال میں لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دراصل یہ (منصوبہ) سب کے فائدے کے لیے ہے۔‘