اسلام آباد ہائیکورٹ نے شاعر فرہاد احمد کی گمشدگی کے کیس میں سیکرٹری دفاع اور داخلہ کو طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے شاعر احمد فرہاد کی جبری گمشدگی سے متعلق کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں احمد فرہاد کی وکیل ایمان مزاری نے عدالت میں دلائل دیے جب کہ وزارت دفاع کے نمائندے اور متعلقہ حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت ایمان مزاری نے عدالت کو بتایا کہ احمد فرہاد کی اہلیہ عروج زینب کو وٹس ایپ کال آئی اور کہا گیا کہ عدالت میں اپنی درخواست واپس لے کر یہ بیان دے دیں کہ احمد فرہاد اپنی مرضی سے گئے تھے تو پھر فرہاد ہفتے کو واپس آجائے گا، یہ واضح طور پر جبری گمشدگی کا کیس ہے، اغوا برائے تاوان ہوتا تو پیسے مانگتے۔
اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ انہیں اب ہر صورت میں بندہ چاہیے، ایک آدمی کو اغوا کرکے رکھا ہوا ہے، اپنے اوپر سے اغوا کار کا لیبل ہٹوائیں، سیکریٹری دفاع ذاتی حیثیت میں پیش ہوں ورنہ وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے۔
عدالت نے حکام کو 3 بجے تک کا وقت دیا او وقفے کے بعد جب سماعت شروع ہوئی تو وزارت دفاع کے نمائندے نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ مغوی آئی ایس آئی کے پاس نہیں، آئی ایس آئی پر الزام ہے مگر وہ اس الزام کی تردید کررہے ہیں۔
اس پر جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا اب معاملہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے دائرہ اختیار سے باہر نکل گیا ہے، وہ اپنی ناکامی بتا رہے ہیں، سیکرٹری دفاع لکھ کر اپنی رپورٹ پیش کریں، سیکرٹری داخلہ اور دفاع عدالت میں پیش ہوں، میں جب ججمنٹ دوں گا تو یہ معاملہ اغوا سے کہیں اور نکل جائے گا، یہ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے، اس کیس میں ایک مثال قائم ہونی ہے، ایک طرف میسجز بھیج رہے ہیں اور پھر کہہ رہے کہ بندہ ہمارے پاس نہیں۔
دوران سماعت جسٹس محسن اختر نے وزارت دفاع کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ کبھی اغوا ہوئے ہیں؟ اغوا ہونے والوں پر جو گزرتی ہے وہ ان ہی کو پتا ہوتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔