کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5422 ویں روز جاری رہا۔
اس موقع پر مستونگ سے سیاسی و سماجی کارکنان عبدالحی بلوچ ، ظہیر بلوچ ، نزیر بلوچ نے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ انسانی حقوق اور سرزمین کے دفاع کے لئے بلند ہونے والے آوازوں کے پاداش میں جبری لاپتہ کرنے اور اذیت خانوں کے نذر کرنے کا ایک ایسا سلسلہ شدت کے ساتھ جاری ہے جسے دیکھ کر یزیدیت بھی شرما جائے ، ریاستی سرکشی و آینہ زوری ، کی گمنڈ میں ریاست پاکستان عالمی انسانی حقوق کے مروجہ اصولوں ، قوانین کا تمسخر اڑاتے ہوئے زرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ، گویا سرکش ریاست پاکستان تمام بنیادی و انسانی حقوق سے مستثنی قرار دیا جاچکا ہے ۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کے بلوچ نوجوانوں کے مسخ شدہ لاشوں اور جبری لاپتہ کرنے کا سلسلہ روز بروز شدت پکڑ رہا ہے بلوچستان کے کئی اضلاع میں پرائیویٹ ملیشیا کے بدمعاشیاں عروج پر ہیں گزشتہ مہینے بھاری تعداد میں مقامی آبادیوں پر دعوا بول کر نا صرف چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا بلکہ مقامی لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جبکے گھروں سے زیور و دیگر نقدی سامان بھی لوٹ کر لے گئے ایسے حالات میں جہاں ہر طرف احتجاج اور لاشیں بکھری ہوئی ہو وہاں حکومت کا جبری لاپتہ و مسخ شدہ لاشوں پہ موقف و موجودہ پالسی تمسخر سے کم نہیں بلکے یہ پالسی پاکستان کے عسکری اداروں کے ننگی جارحیت کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
انہوں نے کہاکہ حقیقت میں خفیہ اداروں کے یہ گماشتہ بلوچ قوم کو کے نسل کشی کو مزید شدت کے ساتھ جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکے وہ اپنے منافع بخش کاروبار جنگ کو جاری رکھ جاری رہ سکے اور اس وطن کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ سکے ۔