کامریڈ ایوب عظیم کا جدوجہد میں کردار
تحریر: داد جان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ریڈ انڈین کنگ تکامسا نے کہاتھا مجھے یقین ہے تم لوگ میرے آبا واجداد کی سرزمین کو ہڑپ کرجاو گے لیکن میں سرینڈر نہیں کروں گا اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے امر ہو جاؤں گا ۔ میں سامراجیت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوسکتا، میں اپنے اجداد کے ورثہ کو تم لوگوں کے ہاتھوں بخوشی نہیں دے سکتا اور پھر ۔۔۔
وہ ایک جنوں تھا ایک جذبہ تھا جس نے حوادث کے سامنے ڈٹنے کا فیصلہ کیا، اس کے حوصلے البرز سے بلند تھے اور وہ بلوچستان و بلوچ قوم کا ایک سچا اور حقیقی عاشق تھا۔
اس نے کہا تھا کہ اگر آپ کبوتر کی طرح ڈر کر آنکھیں بند کرینگے کہ شاید مصیبت آپ کے پاس نہیں آئیگی تو سن لیں کہ مصیبت ہرحال آئے گا اور اس سے چھٹکارا پانےکا واحد ذریعہسامراجی ریاست اور اس کے فوج کو شکست دے کر بلوچ سرزمین کی آزاد حیثیت کا بحال کرنا ہے۔
جس خوبصورت اور خوب سیرت انسان کے کردار کے بارے میں ہم بات کررہے ہیں اس کا نام ایوب عظیم تھا، جسے ہم پیار سے دودا کہا کرے تھے۔ کامریڈ ایوب ایک حقیقت پسند اور عقلیت پسند انسان تھے اور ہمیشہ پولیٹیکل فلاسفی کےنظریہ ریلزم کے حامی تھے ۔ وہ مانتے تھے کہ جب تک آپ کے پاس طاقت نہ ہو آپ کامران نہیں ہوسکتے ہیں ۔ کامریڈ ایوب نے ایک کھٹن دور میں بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے سیاسی شعور حاصل کیا۔ اُس زمانے میں بی ایس او آزاد اور آزادی پسند اداروں کے دوستوں کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں اور بیابانوں سے مل رہے تھے ۔ریاستی جبر سفاکیت کی حدیں پار کررہی تھی لیکن کامریڈ اس کارواں سے وابستہ رہ کر جدوجہد میں اپنا کردار نبھاتے رہے ۔
دو ہزار سترہ کو ریاستی اداروں نے کامریڈ کو جبری گمشدہ کیا اور وہ دو سال سے زائد ریاستی عقوبت خانوں میں مقید رہے، زندان میں واٹر بورڈنگ سے لیکر ہر طرح کی تشدد ہوئی لیکن وہ ایک استقلال اور استقامت کی علامت تھا، وہ جبر سامنا کرنے کے لئے شعوری حوالے سے تھا اور جبر اُس کے ارادوں کو توڑنے میں ناکام ہوا۔
زندانوں میں دو سال ازیت سہنے کے بعد کامریڈ ایوب کو رہا کیا گیا، جبری گمشدگی سے رہائی کے بعد ہم نے ایوب کو دودا کے کردار میں ڈھلتے ہوا دیکھا، ریاستی جبر اور تشدد کے باوجود خوف آپ سے کوسوں دور تھی لیکن لیکن زندان میں وہ اس حقیقت سے آشنا ہوچکا تھا کہ صرف سیاست سے قابض کو شکست دینا ممکن نہیں ہے، جس کی وجہ سے کامریڈ ایوب نے مسلح مزاحمت میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔
دو ہزار انیس کو وہ بلوچ مسلح تحریک کے کارواں میں شامل ہوا اور ریاستی جبر و مظالم کا جواب شعور و عقلیت پسندی کے ساتھ دینا شروع کیا، بقول کامریڈ کے کہ ریاست جتنا ہم پہ ظلم کرتاہے دراصل وہ ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ وہ ایک قابض ہے اور اُس نے بلوچ سرزمین پر بزور بندوق و شمشیر قبضہ کیا ہے۔ ریاست ہماری قوم کی نسل کشی کرکے یاد دلانا چاہتاہے کہ وہ جبر اور ظلم و جبر سے اپنا قبضہ برقرار رکھے گا۔
بلوچ قوم اور نوجوان فیصلہ کرچکے ہیں کہ وہ غلامی کی زنجیر کو اپنے قومی طاقت سے توڑیں گے ۔ وہ اسی فلسفہ پر گامزن تھا تنظیمی و قومی قوت کو توانائی بخشنے کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔
کامرید اتحاد کے داعی تھے اور سمجھتے تھے کہ قومی جدوجہد میں قیادت کافریضہ ہے کہ وہ اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرے ۔ یہ بالیدگی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کے ساتھ کتنے مخلص تھے ۔
وہ کارواں اسلم کے ساتھیوں میں شامل ہوئے اور اپنے جدوجہد سے تاریخ کے اوراق میں امر ہوئے۔
ریاست پاکستان گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر شدید حملے سے ابھی سنبھلے بھی نہیں تھے کہ بیرگیر دودا اپنے دوستوں کے ساتھ پاکستان کے دوسرے بڑے ایئر بیس PNS صدیق میں داخل ہوئے اور قابض فوج کو ہزیمت سے دوچار کیا۔
اس تاریخی معرکہ میں کامریڈ اور اُس کے ساتھیوں نے دس 10 گھنٹے سے زائد دشمن کو کاری ضرب لگائے اور آخری گولی کے فلسفہ کو اپناتے ہوئے امر ہوئے۔
“ شہید چیئرمین غلام محمد نے کہا تھا کہ اگر آپ دوسروں کو شہادت پر سرخ سلام پیش کرتے ہیں تو اپنے لئے بھی اسے قبول کریں “ کامریڈ دودا اور ساتھی چیئرمین کے فلسفہ پر کاربند رہ کر وطن کی مٹی پہ قربان ہوئے۔ بلوچ مزاحمت کی تاریخ کے اوراق میں کامریڈ کے عظیم کردار کو سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔