رواں مہینے بلوچستان کے علاقے نوشکی میں پاکستانی خفیہ اداروں کے نو اہلکاروں کو بس سے اتار کر ہلاک کرنے واقعے کے بعد حکومت بلوچستان نے ایک سیکیورٹی پلان تشکیل دیا ہے۔ لیکن ٹرانسپورٹرز اس پلان کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ کوئٹہ سے دیگر شہروں جانے والے مسافر کوچز کو احتجاجاً کھڑا کرکے کوچز مالکان سراپا احتجاج ہیں۔
سیکورٹی پلان کے تحت تمام کوچز میں سی سی ٹی وی کمیرے تنصیب کرنے کے ساتھ پرائیوٹ سیکورٹی گارڈ رکھے جائیں ، جبکہ ٹرانسپورٹر اس پلان کو انتہائی سخت اور ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں ،انکا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے دیگر صوبوں کے مسافروں کو سوار کرنے کے شرائط نا منظور ہے ، ٹرانسپوٹر محمود بادینی نے کہا کہ یہ نیا پلان میں سخت شرائط ہیں کہ رات کو سفر نہیں کرو شام کو گاڑی نہیں نکالو جبکہ یہاں سے ہمارے بسیں لمبے روٹ کے لیے نکل جاتے ہیں یہ لازمی بات ہے کہ صبح جو گاڑی یہاں سے نکل جاتا ہے تو اسکو شام پڑھ جاتا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ حکومت اس طرح پلان کو واپس لے دوسری جانب ٹرانسپورٹز کی جاری احتجاج کے باعث مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔
خیال رہے کہ بلوچ لبریشن آرمی نے بارہ اپریل کے روز نوشکی میں آر سی ڈی شاہراہ پر ناکہ بندی کرکے کئی گھنٹوں تک گاڑیوں کی چیکنگ کی اس دوران سرمچاروں نے 9 نو افراد کو شناخت کے بعد ہلاک کردیا بعدازاں مذکورہ افراد کی شناخت پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کے طور پر ہوئی۔
واقعہ کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی زیر صدارت امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کا اجلاس بلایا گیا تھا۔ اجلاس میں آئی جی پولیس، چیف سیکرٹری بلوچستان، اے سی ایس داخلہ زاہد اور اعلیٰ سول و عسکری افسران نے شرکت کی۔
اجلاس میں سیکورٹی پلان کو از سر نو مرتب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔