بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سمیت متعدد شہروں میں عیدالفطر کے روز جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی ریلیاں نکالی گئی ہیں۔
کوئٹہ میں اس سلسلے میں احتجاجی ریلی ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے زیر اہتمام کوئٹہ پریس کلب سے نکالی گئی ریلی کے شرکا کے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصویروں کے علاوہ پوسٹرز تھے جن پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے مطالبات درج تھے۔
ریلی کے شرکا مختلف شاہراؤں سے ہوتے ہوئے پریس کلب واپس پہنچے جہاں احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا احتجاجی مظاہرے میں شریک درجنوں لاپتہ افراد کے لواحقین کے طرح ایک 9 سالہ بچی معصومہ بھی اپنی دادی کے ہمراہ شامل تھی۔
معصومہ کے مطابق وہ تین ماہ کی تھیں جب ان کے والد جہانزیب بلوچ کو 2016 میں کلی قمبرانی سے مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، انھوں نے کہا کہ اب میری عمر 9 سال ہے۔ میں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا۔
لاپتہ جہانزیب بلوچ کے بیٹی نے مظاہرے کے دؤران روتے ہوئے کہا عید کے مواقع پر دوسری بچیاں اپنے والدین کے ساتھ شاپنگ کے علاوہ پارکوں میں جاتی ہیں۔ میں کس کے ساتھ شاپنگ کے لیے جاؤں اور کون مجھے گھومنے کے لیے پارک لے جائے گا-
انھوں نے اپنے ہاتھ میں موجود نئے کپڑوں اور جوتوں کو اوپر اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’میری دادی والد کے لیے ہر عید پر نئے کپڑے سلوانے کے علاوہ نئے چپل اس امید کے ساتھ خریدتی ہیں کہ کہیں میرے والد عید کی شب بازیاب ہو کر آ جائیں تو ان کی عید نئے کپڑوں اور جوتوں کے بغیر نہ ہو۔
انھوں نے اپنے والد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اپنے والد کی دیدار ابھی تک نصیب نہیں ہوئی ہے ریاست رحم کھاکر انکے والد کو منظرعام پر لائے-
بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف آج بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے جن میں شہریوں کے علاوہ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین اور بچیں شریک ہوئے اور اپنے والدین کی بازیابی کا مطالبہ کیا-