عالمی اور علاقائی سیاسی صورتحال کا جائزہ ۔ اصغر شاہ

456

عالمی اور علاقائی سیاسی صورتحال کا جائزہ
تحریر: اصغر شاہ
دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تمام عالمی جنگیں معیشت اور منڈی پر چھڑی ہیں۔ یورپ میں صنعتی ترقی کے بعد تیار کردہ سامان کی فروخت کے لیے مارکیٹ کی تلاش شروع ہو گئی تھی۔ اس تلاش کے نتیجے میں سمندری بحری جہاز ایشیا، افریقہ اور امریکہ سمیت دنیا کے ہر حصے تک پہنچنے لگے۔ نتیجتاً 19ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کے آغاز تک دنیا کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا گیا تھا اور بڑی عالمی طاقتوں نے دنیا کی نصف سے زیادہ منڈیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ جیسا کہ تمام منڈیاں زیر قبضہ آ چکی تھیں، اس لیے مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ یورپ کے جو ممالک بعد میں صنعتی ترقی میں داخل ہوئے انہیں اپنی تیار شدہ اشیاء فروخت کرنے کے لیے منڈیاں نہیں مل رہی تھیں۔

ان حالات میں ان ممالک کے پاس دو ہی راستے تھے، ایک یہ تھا کہ طاقت کی بنیاد پر موجودہ ممالک سے منڈیاں حاصل کریں اور منڈیوں پر قابض ممالک سے جنگ لڑیں یا دوسرا آپشن یہ تھا کہ وہ اپنی تیار شدہ اشیاء فروخت کرنے کے لیے ایسے علاقے تلاش کریں جہاں ابھی تک کوئی قابض نہ پہنچا ہو. ان علاقوں میں سے ایک مشرق وسطیٰ (Middle East) تھا، جہاں عالمی قوتیں ابھی تک نہیں پہنچ سکیں تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مشرق وسطیٰ کا خطہ اس وقت ترک سلطنت کے زیر تسلط تھا۔ مشرق وسطیٰ اس لئے بھی بہت اہم تھا کہ دنیا کے تین بڑے براعظم ایشیا، افریقہ اور یورپ یہاں آپس میں آ کے ملتے ہیں. اس لیے مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ وہ منڈی تھی جہاں سے یورپی طاقتیں عرب ریاستوں کے علاوہ ایشیا اور افریقہ تک اپنی تیار شدہ اشیاء کی فروخت کے لیے رسائی حاصل کر سکتی تھیں۔ اس لیے مشرق وسطیٰ کی منڈی تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک راہداری (Corridor) بنانے کی ضرورت تھی اور اس راہداری کی تعمیر کے لیے ترک سلطنت کے ساتھ معاہدہ ضروری تھا۔ جہاں تک ترک سلطنت کا تعلق تھا تو ترک سلطنت کو اس زمانے کا مرد بیمار کہا جاتا تھا۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں ترک سلاطین خصوصاً سلطان سلیمان نے سلطنت عثمانیہ کو ایک مضبوط شہنشاھیت کی شکل عطا کی تھی۔ عرب ریاستوں کے علاوہ ترک افواج نے یورپی ریاستوں پر چڑھائی کر کے مشرقی یورپ کے کئی ممالک پر قبضہ کر لیا تھا لیکن اس وقت جنگیں تیروں اور تلواروں سے لڑی جاتی تھیں۔ جب کہ 19ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کے آغاز میں حالات بدل چکے تھے۔ یورپ میں صنعتی ترقی کے بعد جنگی ہتھیار اور جنگی ساز و سامان بھی فیکٹریوں میں بننے لگا تھا۔ تیروں اور تلواروں کی جگہ بندوقیں اور بارود وجود میں آچکے تھے جن کے سامنے ترک فوج کے تیر اور تلواریں مدہ خارج اور بے معنی ہو چکی تھیں۔ جس کی وجہ سے ماضی کی عظیم سلطنت عثمانیہ 20 ویں صدی کی ایک کمزور اور غیر فعال ریاست بن گئی۔

ترک سلطنت جو صنعتی دوڑ میں پیچھے رہ گئی تھی، اسے ڈر لگنے لگا کہ جدید ہتھیاروں اور آلات سے بھرپور یورپ کی طاقتور ریاستیں اس پر حملہ نہ کر دیں۔ کیونکہ ماضی میں یورپی ریاستوں پر قبضہ کرنے والے ترک سلطانوں کا رویہ یورپ کی عیسائی آبادی کے ساتھ اچھا نہیں رہا تھا۔ چنانچہ یورپ کے عیسائیوں میں ترک مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت موجود تھی۔ ترک مسلمانوں کو ڈر تھا کہ یورپ کے عیسائی کسی بھی وقت ان کے ساتھ ماضی کا بدلہ لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ طاقت کے نشہ سے سرشار برطانیہ اور فرانسیسی تجارتی کمپنیاں منڈی کی تلاش میں مشرق وسطیٰ پہنچ چکی تھیں۔ فرانسیسی کمپنی نے مصری حکومت سے سوئز نہر (Suez Canal) بنانے پر زور دینا شروع کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ مصر اس وقت ترک سلطانوں کے ماتحت تھا اور وہاں ترک سلطان کی طرف سے مقرر کردہ وائسرائے کی حکومت تھی۔ جب فرانسیسی کمپنی نے نہر سوئز کی تعمیر کے لیے زور دینا شروع کیا تو مصر کے ترک وائسرائے کو ان کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا اور نہر سوئز کی تعمیر 1859ع میں شروع کی گئی۔ تعمیر کے آغاز میں مصر اور فرانس کے شیئرز شامل تھے، لیکن بعد میں 1875ع میں برطانیہ نے مصر کو بے دخل کر کے مصر کی حکومت سے شیئرز خرید کر لئے۔ اس کے بعد نہر سوئز کا کنٹرول برطانیہ اور فرانس کے ہاتھ میں آ گیا۔ ترک سلطان کو ڈر تھا کہ برطانیہ اور فرانس نہر سوئز کے بہانے مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستوں پر قبضہ کر لیں گے لیکن باوجود اس کے ترک سلطان میں برطانیہ اور فرانس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کی جرئت نہیں تھی۔ لہذا، ترک سلطان کو یورپ میں ایسے اتحادی ممالک کی ضرورت تھی، جو مشرق وسطیٰ میں برطانیہ اور فرانس کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثر و رسوخ کو روک سکیں۔ مزید یہ کہ روسی شہنشاہیت کی سرحدیں ترک سلطنت سے ملتی تھیں۔ جس کی وجہ سے ترکوں کو یہ خطرہ بھی محسوس ہوا کہ روس کسی بھی وقت ترکی پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس لیے ترکوں کو اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے جدید ہتھیاروں کی ضرورت تھی۔ نہ صرف جدید ہتھیاروں کی ضرورت تھی بلکہ ہتھیار چلانے کے لیے ضروری تربیت کی بھی ضرورت تھی۔ ترکی کو جدید ہتھیار اور ان ہتھیاروں کو چلانے کی تربیت صرف یورپ کے ترقی یافتہ ممالک ہی دے سکتے تھے۔

جرمنی اور اٹلی کو مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ چاہیے تھی۔ اسی لیے جرمنی اور اٹلی مل کر یورپ سے مشرق وسطیٰ تک ایک اقتصادی راہداری (Economic Corridor) بنانا چاہتے تھے۔ جب جرمنی اور اٹلی نے یہ منصوبہ ترک حکومت کے سامنے رکھا تو ترک سلطان نے راضی ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ کیونکہ جرمنی اور اٹلی کو راہداری دینے سے مشرق وسطیٰ میں برطانیہ اور فرانس کے خلاف دو طاقتور قوتیں ترک سلطان کے دوست اور مددگار کے طور پر کھڑی ہونی تھیں. اس طرح راہداری کی تعمیر 1903ع سے شروع ہو گئی۔ تعمیر کے لیے فنڈز جرمن حکومت کے ڈوئچ بینک (Deutsche Bank) نے فراہم کیے۔ جرمنی کو مشرق وسطیٰ سے ملانے والی یہ راہداری 1000 میل لمبی تھی۔ چونکہ اس دور میں موٹر وے بنانے کا کوئی رواج نہیں تھا، اس لیے ریلوے لائن بچھائی گئی۔ یہ ریلوے لائن جرمن شہر برلن سے شروع ہوتی اور اٹلی کے راستے ترکی میں داخل ہوتے ہوئے شام سے بغداد جانی تھی۔ اسی لیے اس راہداری کا نام برلن-بغداد کوریڈور(Berlin-Baghdad Corridor) رکھا گیا۔

بلکل اسی طرح جیسے پاکستان میں راہداری کو چین-پاکستان-اقتصادی راہداری (China-Pakistan- Economic Corridor) کہا جاتا ہے۔ امریکہ کو چین-پاکستان-اقتصادی راہداری پر اعتراض ہے۔ جبکہ برطانیہ اور فرانس کو برلن-بغداد کوریڈور پر اعتراض تھا۔ برطانیہ اور فرانس کو اعتراض تھا کہ برلن-بغداد ریلوے لائن کی تعمیر سے نہر سوئز کے تجارتی راستے پر اثر پڑے گا۔ جرمن حکومت نے برطانیہ اور فرانس سے بات کی اور انہیں یقین دلایا کہ برلن-بغداد ریلوے لائن کی تعمیر سے نہر سوئز کی تجارت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، لیکن اس کے برعکس نہر سوئز کے راستے کو فائدہ ہوگا۔ جبکہ دوسرا اعتراض روس کا تھا۔ روس کا موقف یہ تھا کہ برلن-بغداد ریلوے لائن آرمینیا اور کرد علاقوں سے گزرے گی، جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جرمن حکومت نے روس کے زار کو بھی یقین دلایا تھا کہ یہ ریلوے لائن آرمینیا اور کرد علاقوں سے نہیں گزرے گی۔ برطانیہ، فرانس اور روس عارضی طور پر خاموش ہو گئے لیکن مطمئن نہیں تھے۔ اسی طرح امریکہ، چین- پاکستان-اقتصادی راہداری کی تعمیر پر خاموش ہے لیکن وہ بالکل بھی مطمئن نہیں ہے۔

ویسے تو کوئی بھی جنگ بڑی تباہی لاتی ہے، لیکن خاص طور پر عالمی جنگ کی تباہی ناقابل تلافی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قوتیں جنگ کا فیصلہ اس وقت کرتی ہیں جب ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔

اس طرح 1903ع سے شروع ہونے والی، برلن-بغداد ریلوے لائن کی تعمیر 10 سال تک جاری رہی اور برطانیہ اور فرانس 10 سال تک خاموش رہے۔ لیکن 10 سال کے بعد جب برطانیہ اور فرانس کو یقین ہو گیا کہ یہ منصوبہ مکمل ہونے جا رہا ہے تو برطانیہ نے 1913ع میں ترک سلطان پر اصرار کیا کہ وہ برطانیہ کو اس منصوبے میں شامل کرے اور برطانیہ کے دو نمائندوں کو بھی ریلوے کمپنی کے بورڈ میں شامل کیا جائے۔ برطانیہ کو اس منصوبے میں شامل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ برطانیہ اور فرانس کو مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ میں حصہ دار بنایا جائے۔ یہ شراکت داری نہ تو ترک سلطان کو قبول تھی اور نہ ہی جرمنی اور اٹلی کو۔ ترک سلطان تو کمزور تھا جو برطانیہ کو جواب نہیں دے سکتا تھا لیکن جرمنی اور اٹلی کمزور نہیں تھے۔ اس لیے یورپ سے مشرق وسطیٰ تک تعمیر ہونے والی اس اقتصادی راہداری، جو کہ تاریخ کی پہلی اقتصادی راہداری تھی، پے پہلی جنگ عظیم چھڑی۔
اس جنگ میں ایک طرف برطانیہ، فرانس اور روس تھے تو دوسری طرف جرمنی، اٹلی اور ترکی کھڑے تھے۔ یہ جنگ 5 سال تک جاری رہی۔ جنگ کے اختتام پر جرمنی، اٹلی اور ترکی کو شکست ہوئی اور برطانیہ اور فرانس فتح یاب ہوئے۔ لینن کی قیادت میں روس میں ایک سوشلسٹ انقلاب رونما ہوا اور زار کی سلطنت ختم ہوئی تھی۔

جنگیں جہاں تباہی لاتی ہیں وہاں انقلاب بھی لاتی ہیں۔ پرانی اور فرسودہ چیزوں کو تباہ کر کے ان کی جگہ نئی اور صحت مند تعمیرات کرتی ہیں۔

ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ دنیا میں اکنامک کوریڈور تعمیر ہو اور جنگ نہ چھڑے۔ اس وقت بھی دنیا میں ایک اور اقتصادی راہداری بنائی جا رہی ہے جو چین کو مشرق وسطیٰ سے جوڑے گی۔ اس لیے دنیا ایک بار پھر ایسی عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے جس طرح 1914ع کی جنگ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ پہلی جنگ عظیم بھی اقتصادی راہداری پر لڑی گئی تھی اور تیسری عالمی جنگ بھی اقتصادی راہداری پر لڑی جا سکتی ہے۔ 1914ع میں جرمنی اور اٹلی کو مشرق وسطیٰ کے لیے راہداری چاہیے تھی اور اب چین کو بھی مشرق وسطیٰ تک رسائی کے لیے راہداری چاہیے۔ کل بھی لڑائی مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ پر تھی اور آج بھی لڑائی مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ پر ہی ہے۔ جب جرمنی اور اٹلی مشرق وسطیٰ تک رسائی کے لیے اقتصادی راہداری بنا رہے تھے تو برطانیہ اور فرانس کو 10 سال انتظار کرنا پڑا تھا۔ 10 سال کے بعد حالات جنگ کی طرف مڑے تھے۔ اب بھی، چین کے شروع کردہ CPEC منصوبے پر 10 سال گزرنے کے بعد، ایسا لگتا ہے کہ صورتحال جنگ یا کشیدگی کی طرف جا رہی ہے۔

کیونکہ چین نے CPEC منصوبہ 2013ع میں شروع کیا تھا اور امریکہ اور اس کے اتحادی 2023ع تک صبر و تحمل سے ہر چیز پر نظر رکھے ہوئے تھے اور مانیٹر کر رہے تھے۔ آخر کار، CPEC کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ کی طرف سے ایک جوابی منصوبہ 10 ستمبر 2023ع کو ہونے والے G-20 اجلاس میں پیش کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ہندوستان کو مشرق وسطیٰ اور یورپ سے جوڑنے کے لیے ’’انڈیا-مڈل ایسٹ-یورپ-اکنامک کوریڈور‘‘ ( India-Middle East-Europe-Economic Corridor) کے نام سے ایک نئی اقتصادی راہداری تعمیر کی جائے گی۔ اس راہداری کے تحت یورپی ممالک کو جرمنی، اٹلی اور فرانس سے یونان تک ریلوے لائن کے ذریعے جوڑا جائے گا۔ اس کے بعد بحیرہ روم (Mediterranean Sea) کے ذریعے یورپ کو مشرق وسطیٰ سے جوڑنے کا پروگرام ہے۔ مشرق وسطیٰ کو یورپ سے جوڑنے کے لیے اسرائیل کی بندرگاہ حیفہ کو چنا گیا ہے۔ چونکہ ہندوستان بحیرہ روم پر نہیں ہے، اس لیے متحدہ عرب امارات کی بندرگاہوں کو بحر ہند کے ذریعے ہندوستان کو مشرق وسطیٰ سے جوڑنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ عرب امارات کو اسرائیل کے بندرگاہ حیفہ سے جوڑنے کے لئے عرب امارات اور اسرائیل کے درمیاں ایک موٹر وے بنانے کا منصوبہ بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوئے ہیں اور عرب امارات کے سلطان شیخ محمد نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان راہداری کو دبئی-حیفہ راہداری کا نام دیا گیا ہے۔ اس پورے منصوبے میں، جیسا کہ مرکزی بندرگاہ کی حیثیت حیفہ بندرگاہ کی ہے، اس لیے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک سے جوڑنے کے لئے حیفہ سے سعودی عرب اور حیفہ سے اردن تک موٹر وے کی تعمیر کے منصوبے موجود ہیں۔ آہستہ آہستہ پورے مشرق وسطیٰ کو اسرائیل کے ساتھ جوڑ دیا جائیگا۔ مشرق وسطیٰ میں سڑکوں کے اس جال کو پھیلانے کا مقصد چین کو یہ تاثر دینا ہے کہ چین پاکستان کی مدد سے مشرق وسطیٰ تک پہنچنے کے لیے جو راہداری بنا رہا ہے اس سے چین کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک پہلے ہی یورپی راہداری کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس لیے ان میں سے کوئی بھی ملک چین کا مال خرید نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ چین کو ان سڑکوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جو یورپی کوریڈور کے تحت مشرق وسطیٰ کو ملانے کے لیے بنائی جا رہی ہیں۔

چین کو مشرق وسطیٰ سے ملانے والی چین-پاکستان-اقتصادی راہداری کا کام تقریباً 70 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ چین نے اس منصوبے میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ ایسے میں امریکہ کا اس راہداری کو فل اسٹاپ لگانے کا مقصد یہ ہے کہ چین منہ کے بل گر جائے گا۔

یاد رہے کہ چند سال قبل چین نے شنگھائی سے یورپ تک ٹرین چلا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ چین یورپ میں اپنے سامان کی فروخت کے لیے اقتصادی راہداری بنا رہا ہے۔ یہ کوریڈور چین کے ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) کا ایک حصہ تھا، لیکن امریکہ، انڈیا-مڈل ایسٹ-یورپ اکنامک کوریڈور بنا کر اور یورپی ممالک میں ریلوے لائنیں بچھا کر چین کو یورپی منڈی سے بے دخل کر رہا ہے۔ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ ایک طرف یورپی مارکیٹ اور دوسری طرف مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ چین سے چھین جانے کے بعد چین کا ردعمل کیا ہو گا۔ چین براہ راست لڑائی کے لیے آگے نہیں آ رہا بلکہ خطے میں موجود تضادات کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس وقت چین، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعہ کو اس راہداری کو روکنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت-مشرق وسطی-یورپ اقتصادی راہداری منصوبہ 10 ستمبر 2023ع کو پیش کیا گیا تھا اور 7 اکتوبر 2023ع کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کر دیا تھا۔ حماس کوئی طاقتور ریاست نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عالمی قوت ہے، لیکن آج کے دور میں جنگیں اسی طرح لڑی جاتی ہیں۔ امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی مذہبی قوتوں کا استعمال کیا تھا اور چین وہی طریقہ استعمال کر کے حماس اور حوثی قوتوں کو اسرائیل کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد یہ بغاوت پولینڈ، مشرقی جرمنی اور مشرقی یورپی ممالک تک پھیل گئی تھی۔ جس بغاوت نے بعد میں سوویت یونین کا تختہ الٹ دیا تھا۔ کیونکہ بین الاقوامی قوتیں جن بغاوتوں کی ہمت افزائی کرتی ہیں، وہ بغاوتیں جلد ختم نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر اسرائیل کے خلاف حماس کے حملے بند نہ ہوئے تو اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اسرائیل اس وقت اس لئے نشانہ ہے کیونکہ اسرائیل نے امریکہ کی طرف سے پیش کردہ راہداری کے لیے حیفہ کی بندرگاہ پیش کش کی ہے۔ اسی طرح چین-پاکستان- اقتصادی راہداری کے لیے بندرگاہ کی پیش کش پاکستان نے کی ہے۔ اس لیے پاکستان بھی ایسی صورت حال میں پھنس سکتا ہے جیسے اسرائیل اس وقت پھنسا ہوا ہے۔

ماضی میں ترکی کے ایک طرف برطانیہ اور فرانس کے ساتھ بھی تعلقات تھے اور دوسری طرف جرمنی اور اٹلی کو بھی راہداری فراہم کی تھی۔ اس لیے جب بین الاقوامی قوتیں ناراض ہوئیں تو انہوں نے ترک سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اب پاکستان کا بھی یہی حال ہے۔ ایک طرف پاکستان امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات چاہتا ہے اور دوسری طرف چین کو اپنی سرحدوں میں راہداری بھی دیتا ہے۔ اگر بین الاقوامی قوتیں ناراض ہو گئیں تو پاکستان کا حشر بھی ایسا ہو سکتا ہے جیسا ماضی میں ترکی کا ہوا تھا۔

چین اپنا پتا کھیل چکا ہے۔ بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل کی جانب سے حیفہ کو بین الاقوامی بندرگاہ بنانے کا کام زوال کا شکار ہو چکا ہے۔ اگر ہندوستان سے یورپ تک پورے کوریڈور کا کام زوال پزیر ہو جاتا ہے تو امریکہ کا ردعمل کیا ہو گا؟ کیا امریکہ، پاکستان کو CPEC کے کام کو روکنے اور چین کو راہداری فراہم کرنے سے سختی سے منع نہیں کرے گا؟
اب تک پاکستان، امریکہ اور چین کے ساتھ دہری پالیسی کے تحت تعلقات بحال رکھے ہوئے ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کو دونوں ممالک میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑیگا۔

یہ درست ہے کہ پاکستانی فوج، امریکہ کی نور نظر رہی ہے لیکن اب یہ قصہ ماضی کی کہانی ہو چکا ہے۔ جب تک سوویت یونین تھا، امریکہ کو پاکستانی فوج کی ضرورت تھی۔ جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو یہ ضرورت بھی ختم ہو گئی۔ اس کے بعد پاکستان، طالبان کو کنٹرول کرنے کے نام پر امریکہ سے پیسے بٹورتا رہا لیکن طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد امریکہ کو نہ تو پاکستانی فوج کی ضرورت ہے اور نہ ہی پاکستان کی۔

یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستانی حکمران جو پہلے سکون کے ساتھ امریکہ سے امداد حاصل کرتے تھے وہی اب آئی ایم ایف کے قدموں پے گر کے قرض ملنے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ یہ بھی ایک کھلا سچ ہے کہ یہ قرض امریکہ، پاکستان کی معیشت کو زندہ رکھنے کے لیے دلاتا ہے۔ چین تو پاکستان کی معیشت کو چلانے کے لیے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دے گا۔ نہ قرض کی شکل میں، نہ ہی امداد کی شکل میں۔

اس وقت امریکہ طالبان سے متصادم نہیں ہے اور نہ ہی سوویت یونین کا کوئی وجود ہے۔ اس وقت امریکہ چین کے ساتھ تنازعہ میں ہے۔ اگر پاکستان چین کے خلاف امریکہ کا ساتھ نہیں دیتا تو پاکستان اور پاکستانی فوج امریکہ کہ کسی بھی کام کے نہیں رہینگے۔ اس صورت حال میں اگر پاکستان چین کے ساتھ کھڑا رہا تو امریکہ پاکستان کا قرضہ روک سکتا ہے اور اس پر پابندیاں (Sanctions) بھی لگا سکتا ہے۔ اگر امریکہ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگاتا ہے تو پاکستان کی حالت وہی ہو گی جو سال 2022ع میں سری لنکا کی ہوئی تھی۔

لیکن اگر پاکستان معاشی بحران سے بچنے کے لیے امریکہ کی حمایت کرتا ہے اور CPEC منصوبے کو روکتا ہے تو چین پاکستان کے وجود کا دشمن بن جائے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان دو ناؤ کا سوار نہیں بن سکتا۔

ماضی میں ترک سلطنت اس لیے ٹوٹی کہ مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستیں ترکی کے قبضے سے تنگ آ چکی تھیں اور ترکوں سے جان چھڑانا چاہتی تھیں۔ اس وقت پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔
پاکستان میں قید سندھی، بلوچ اور پشتون اقوام بھی پاکستان سے تنگ آ چکے ہیں اور خود کو پنجابی تسلط سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ مادی حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس دور میں کسی بھی قابض ریاست کو توڑنے کے لیے بیرونی قوتوں سے زیادہ مقامی باغی قوتوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔

اس لیے سندھ اور بلوچستان کے آزادی پسند قوم پرستوں کو ایک نئی صفبندی کر کے نئے سرے سے کمر کسنی پڑے گی ۔ کیونکہ عالمی طاقتیں ان سے کسی بھی وقت رابطہ کر سکتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ جنگ فقط مزاحمتی قوتیں ہی لڑ سکتی ہیں۔ اس لئے بین الاقوامی قوتیں ان آزادی پسند جماعتوں سے رابطہ کر سکتی ہیں جو مزاحمتی طاقت رکھتے ہیں۔ باقی جو عدم ​​تشدد کے حامی ہیں وہ وزراء کے بیٹوں کی شادیاں اٹینڈ کرتے رہیں یا آئی جی اور ڈی آئی جی سے ملنے کے لئے ان کے دفاتر کے چکر لگاتے رہیں لیکن انہیں اپنی جان کی امان کے سوا کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔