سفرِ جدوجہد: حیدر اور بلوچستان کی راہیں – چراگ بلوچ

386

سفرِ جدوجہد: حیدر اور بلوچستان کی راہیں

تحریر: چراگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہمارے یہاں لٹریچر تو ہے اگر میں یہ کہوں کہ نہیں ہے تو شاید غلط ہو لیکن جو لٹریچرز ہیں بھی تو وہ بلوچ سماجی ریشنلٹی سے ہٹ کر ہیں ہمارے فکشن رائٹرز میں سے کتنے رائٹرز ایسے ہیں بلوچ سماج کی موجودہ باریک بینیوں کو دیکھ کر ہمیں ان سے آگاہی دینے کی کوشش کی ہے شاید اسی لیے کہنے کو یہ ملتا ہے ہمارے پاس معیاری لٹریچر کی کمی ہے۔لیکن کچھ ایسے بھی رائٹرز ہیں جنہوں نے سنجیدگی سے اپنی کردار نبھانے کی کوشش کی ہے۔ جن میں سے کسی ایک کا اگر نام لوں تو برز کوہی ہمارے سامنے آتا ہے۔ سیاسی ادارے بھی ہیں جو ایسی لٹریچر پروڈیوس کررہے ہیں۔

مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے آج کل بلوچ کو اس چیز کی شدت سے کمی کا احساس ہو رہا ہے اور اس پر کام بھی کررہے ہیں، میں اس ناول کو کہہ سکتا ہوں کہ یہ بھی ایک اضافہ ہے۔
ایسی لٹریچرز جو بلوچ سماج میں آئے روز ہونے والے واقعات،،بنیادی تضاد، اسمیں ہمارا واضح کردار کو اجاگر کرے۔
یہ کوئی عام ناول نہیں ہے اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ میں اپنی ناقص سوچ کے بسات اس پر کچھ لکھنے کی کوشش کرونگا۔ جتنا اس ناول کی اہمیت ہے شاید میں اس اہمیت کو ظاہر نہ کرسکوں۔ یہ ناول اس لیے بھی میرے لیے اہمیت کے حامل ہے کیونکہ ایک تو یہ ہمارے یہاں اپنی نوعیت کی پہلی ناول ہے، جو سماج میں ہو رہے واقعات کو اور کس طرح ہم ان چیزوں سے بے خبر ہیں جو خود کی اصلیت سے بیگانہ ہیں ہم ایک ایسے ریس کے پیچھے پڑے ہیں جس کا کوئی اختتام نہیں۔ جہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر صرف پیسے کیلئے۔ اگر تعلیم حاصل کرنے کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے تو ایک تعلیم یافتہ اور ایک مزدور میں کیا فرق ہے؟

یہ ہمارا تیسرا جنریشن ہے جو مکمل طور پر کالونائیزڑ ہے وہ آج جس سماج میں رہ رہے ہیں جو کالونائیزر کے بنائے ہوئے جھالوں سے براہ ہوا ہے وہاں سے آسانی سے نکنا مشکل ہے۔ جس سے ایک باشعور انسان ہی خود کو اس جھال سے نکال سکتا ہے۔

ہم جن تعلیمی اداروں میں جس نصاب کو پڑھ رہے ہیں۔حالانکہ جس سماج میں رہ رہے ہیں وہ سب کالونائزر کی بنائے ہوئے چیزوں سے گرے ہوئے ہیں وہ ہمیں اُن چیزوں کو دیکھانے کی کوشش کرتا ہے جو ہماری خود کی حقیقت سے ہمیں دور کر دیں، وہ وہی چیزیں ہمارے لیے چھوڑتا ہے جو اس کے سسٹم کے حق میں ہو یا اس کے سسٹم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کریں۔وہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ ہم خود کی حقیقت سے با خبر ہو جائیں۔ کیونکہ جب ہم خود کو جانیں گے تو ہم اس کے اور ہمارے درمیان غیر فطری رشتے سے آشنا ہوں گے کیونکہ ایک قابض اور مقبوضہ کے درمیان صرف اور صرف آقا اور غلام کا رشتہ ہوتا ہے، جو صرف اور صرف تشدد کے اوپر ٹکتا ہے۔
ایسی لٹریچرز جو ہمارے ذہنوں میں سوالات پیدا کریں۔ کیا واقعی میں جسے ہم حقیقت سمجھ کر بیٹھے ہیں وہی سچ ہے یا پھر سچ کچھ اور ہے؟
انسان اور جانور میں بنیادی فرق یہی ہے انسان اچھائی اور برائی کے درمیان فرق کو سمجھ سکتا ہے جو ماحول کو اپنے حساب سے ڈال سکتی ہے نہ کہ ماحول کے حساب سے خود کو ایڈجسٹ کرے۔

ویسے تو آپ لوگ خود اس ناول کو پڑیں۔ لیکن میں مختصراً اس کی کہانی کی کچھ چیزیں لکھوں گا۔

اس ناول میں مرکزی کردار حیدر نام کے لڑکے کو دیکھایا گیا ہے، جو رہ تو اسی سماج میں رہا ہوتا ہے لیکن وہ اپنے اردگرد کی چیزوں سے بےخبر ہے وہ دوسروں کو دیکھتا ہے جو ایک ایسی ریس میں لگے ہوئے ہیں۔ فوچر کے خواف دیکھ رہے ہیں نوکری اور پیسہ کمانے کی خواہشات لئے ہوئے ہیں۔

وہ بھی ان کو دیکھ کر باقی لوگوں کی طرح ایک عیش و عشرت والی زندگی گزارنے کے خواف دیکھ رہا ہے وہ بھی دوسروں کی طرح اسی ریس میں شامل ہوا ہے وہ بھی تعلیم حاصل کرنے کے مقصد کو پیسہ کمانا سمجھتا تھا۔

بعد میں پھر یہی دیکھایا گیا ہے۔ کیسے اسکی تربیت ہوتی ہے وہ ان کتابوں کو پڑھتا رہتا ہے جو اس کی پہچان شناخت (بلوچ) سے وابستہ ہوتے ہیں اب وہ مختلف انسان بن جاتا ہے پھر اسکو جب موقع ملتا ہے تو وہ اپنی زندگی کا چناؤ کرلیتا ہے۔ بجائے دوسرے کی طرح نوکری، پیسہ، فوچر وہ اپنی زندگی کا انتخاب کسی اور راستے کی طرف کرلیتا ہے۔ اب وہ بلوچ قومی تحریک سے جڑ جاتا ہے اس ناول میں ہمیں یہی دیکھایا گیا ہے کہ ہمارے سماج میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو بغیر مقصد کے زندہ رہ رہے ہیں لیکن زندگی کی اصل مقصد سے ناواقف ہیں اور ایسے بھی لوگ جو اپنی مفادات اور خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی مفادات کیلئے جہدوجہد کررہے ہیں اور حیدر بھی ایک ایسی کردار بن جاتا ہے۔
نتیجہ:
میں نے اس ناول میں سب سے اہم چیز یہ پایا۔ یہ فکشن سے زیادہ حقیقت پر مبنی تھا شاید ہی اس طرح کا ناول ہمارے یہاں ہو لیکن میں نے اس سے پہلے اس طرح کا ناول افریکہ کے گوگی تیانگو کی “کینیا” افریکائی کالونیل پر مبنی، اُس وقت کے حالات پر ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں
موجودہ دور میں ہمارے طالب علم طبقہ جو سی ایس ایس، پی سی ایس جیسے کلچر کا شکار نظر آتے ہیں اور نوکری کے پیچھے اپنی قومی سوال سے پراموش اختیار کئے ہوئے ہے جو بلواسطہ یا بلا واسطہ خود کی حقیقت سے دور ہوتے جارہے ہیں اس کرپٹ سسٹم کے زیادہ سے زیادہ شکار ہوتے جارہے ہیں۔
وہ صرف پاکستانی نصاب کو پڑھتے ہیں جو مکمل طور پر کرپٹ اور نالائق لوگوں کو جنم دے رہا ہے جو نہ اپنے لیے اور نہ اس سماج کیلئے کچھ کرنے کے صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس نے انہیں ایک ایسے ریس کے پیچھے لگایا ہوا ہے جس میں انفرادیت پسندی، لالچ، ایک دوسرے کو گرا کر اور خود آگے نکلنے کی کوششیں میں لگے ہوئے ہیں۔ اور تعلیم کو صرف پیسہ کمانے کے حصول کیلئے حاصل کرنا۔
اس ناول میں جو بنیادی سوالات کئے گئے ہیں جسمیں اصل زندگی کا مقصد اور بلوچ ہونے کے ناطے آپ کا اسمیں کیا کردار ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔