دمشق حملے کے جواب میں ایران کے پاس صرف ’بُرے آپشن‘ ہی رہ گئے ہیں – تجزیہ کار

302

ایران نے دمشق میں اپنے قونصل خانے پر کیے گئے حالیہ فضائی حملے کا الزام اسرائیل پر لگاتے ہوئے اسے سزا دینے کا عزم ظاہر کیا ہے، جس سے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں تنازع مزید پھیل سکتا ہے جب اسرائیل حماس جنگ کے باعث خطہ پہلے ہی دہک رہا ہے۔

دوسری جانب ماہرین اور تجزیہ کار اس بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں ایران کی جوابی کارروائی کس نوعیت کی ہوسکتی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعہ کو کہا کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ ایران شام میں حملے کے جواب میں جلد ہی اسرائیل پر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا تاہم انہوں نے تہران کو خبردار کیا کہ وہ حملہ نہ کرے۔

بائیڈن نے ایک تقریب کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا،”میں محفوظ معلومات میں جانا نہیں چاہتا لیکن میری توقع تاخیر کے مقابلے میں اسیا جلد ہونے کی ہے۔” یہ پوچھے جانے پر کہ اسرائیل پر حملہ کرنے سے متعلق ایران کے لیے ان کا کیا پیغام ہے، بائیڈن نے کہا، “ایسا نہ کریں۔”

انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل کے دفاع کے لیے وقف ہیں، ہم اسرائیل کا ساتھ دیں گے، ہم اسرائیل کے دفاع میں مدد کریں گے اور ایران کامیاب نہیں ہوگا۔

امریکہ نے اس معاملے پر بات چیت کے لیے مشرق وسطیٰ میں اپنے اعلیٰ کمانڈر مائیکل کریلا کو اسرائیل بھیجا ہے۔

ایران اسرائیل کے اندر بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر، ہوائی اڈے اور توانائی کے مراکز سمیت اہم مقامات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس صورتحال میں تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

خطے کی دہکتی ہوئی صورت حال میں ایران کا جواب اس کے بعد کے منظر نامے کا تعین کرے گا۔ یہ چیزیں ایرانی عہدے داروں کے پیش نظر بھی ہوں گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایران اپنے ہدف یا اہداف کا انتخاب کیسے کرتا ہے۔

فرانس میں قائم ایک تھنک ٹینک یویووس کے مشرق وسطیٰ کے ماہر ڈیوڈ خلیفہ کہتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت موجودہ صورت حال کو مزید آگے دھکیلنا نہیں چاہتی۔ کیونکہ جمع تفریق کی غلطی بڑے نتائج کے ایک سلسلے کو جنم دے سکتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈیٹرنس کا ایک نفسیاتی پہلو بھی ہوتا ہے۔

ایک غیر منافع بخش تنظیم، صوفن سینٹر کا کہنا ہے کہ دمشق کے قونصل خانے پر اسرائیل کے فضائی حملے کا مقصد تہران کو یہ بتانا تھا کہ اسے حماس اور اس کے غیر ریاستی کردار لبنانی حزب اللہ اور یمنی حوثیوں کی کارروائیوں کے لیے جوابدہ ٹہرایا جائے گا۔

صوفن سینٹر نے اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ ایران کی دھمکیوں کے بعد اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں تہران اپنے بیلسٹک اور کروز میزائلوں سمیت مسلح ڈرونز کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ پر گہری نظر رکھنے والی یونان کی ایک آزاد تجزیہ کار ایفا کولوریوتی کہتی ہیں کہ ایران دھمکی دینے کے ساتھ ساتھ اب بھی علاقائی اور بین الاقوامی فورمز کو یہ پیغام بھیج رہا ہے کہ وہ فوجی ردعمل کے متبادل سیاسی آپشن کی تلاش میں ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ تہران کم از کم اس مرحلے پر اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگ نہیں چاہتا۔

ایک سابق فرانسیسی سفارت کار مشیل ڈگلس نے ایک تھنک ٹینک مونٹیگن کی ویب سائٹ پر اپنے تجزے میں لکھا ہے کہ ایران کو ایک مخمصے کا سامنا ہے۔ اسے اپنی طاقت کے بارے میں یہ یقین نہیں ہے کہ وہ موجودہ صورت حال میں اسرائیل کے ساتھ تنازع کو بڑھا سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر وہ جواب نہیں دیتا تو خطے میں، اور اس کے وفادار مسلح گروہوں میں اس کی ساکھ کو دھچکا لگ سکتا ہے۔

جنیوا گریجوایٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایک تجزیہ کار فرزان ثابت کہتے ہیں کہ ایران عراق، یمن، شام اور لبنان میں مسلح گروہوں کی سرپرستی کرتا ہے جو اسرائیل کے خلاف اس کے نام نہاد ’محور مزاحمت‘ کا حصہ ہیں اور فرنٹ لائن پر ہیں۔

ثابت نے مختصر پیغام رسانی کے پلیٹ فارم ایکس پر اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ ان کے خیال میں ایران ممکنہ طور پر اسرائیل کو اپنا جواب، اپنی سرپرستی کے حامل مسلح گروہوں کی جانب سے حملوں کی تعداد بڑھانے یا انہیں ہتھیاروں کی فراہمی میں اضافہ کر کے دے سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ آپشن زیادہ ممکن ہے کیونکہ اس کی سیاسی قیمت بھی کم ہے اور ساکھ کو براہ راست دھچکا لگنے کا امکان بھی محدود ہے۔

ان کے خیال میں ایران کے پاس دیگر ممکنہ آپشنز میں کسی بیرونی ملک میں اسرائیلی سفارتی مشن پر حملہ ہو سکتا ہے مگر یہ آپشن اپنے اندر کسی تیسرے ملک کو ملوث کرنے کا خطرہ لیے ہوئے ہے۔

صوفن سینٹر نے ایران کے آپشنز کے حوالے سے کہا ہے کہ ایران خطے میں، یا اس خطے سے باہر امریکی تنصیبات پر دہشت گرد حملوں کی بھی کوشش کر سکتا ہے۔

فرانسیسی تھنک ٹینک یویووس کے تجزیہ کار ڈیوڈ خلیفہ نے یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر مشتبہ اسرائیلی حملے کا ذکر کرتے ہوئے آٹھ ٹانگوں والے ایک سمندری جانور آکٹوپس کا حوالہ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل نے اس بار آکٹوپس کی ٹانگوں کی بجائے اس کے سر پر وار کر کے کھیل کے اصولوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ایران کو پراکسی جنگ سے باہر نکلنے پر مجبور کیا جا سکے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اب ایران کے پاس جواب دینے کے لیے صرف ’برے آپشن‘ رہ گئے ہیں۔

ایران کی دھمکی کے بعد خطے میں صورت حال کشیدہ ہے اور کئی ملکوں نے اپنے شہریوں کو اسرائیل، فلسطین، ایران اور لبنان میں سفر سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے جمعرات کو کہا کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ تنازع پھیلے، اور انتباہ کیا کہ ایران اپنے قونصل خانے پر حملے کو خطے میں تنازع بڑھانے یا امریکی تنصیبات یا عملے پر حملے کے بہانے کے طور پر استعمال نہ کرے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرن یاں پیئر نے مزید کہا کہ امریکہ دمشق کے قونصل خانے پر حملے میں ملوث نہیں ہے۔

دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری کسی نے بھی قبول نہیں کی۔ اس حملے میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں پاسداران انقلاب کے سات اہل کار تھے۔

ان میں ایک سیئیر عہدے دار بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی بھی شامل تھے جو ایران کی غیر ملکی فوجی کارروائی کی نگران قدس فورس کے ایک سینئر کمانڈر تھے۔